Sep ۳۰, ۲۰۲۰ ۱۶:۲۵ Asia/Tehran
  • ٹرمپ اور جوبائیڈن نے امریکی تاریخ کا بدترین انتخابی مباحثہ رقم کیا

نوے منٹ تکرار، جھگڑا، اہانت، غصہ، جھنجلاہٹ اور بدنظمی، امریکہ میں دو ہزار بیس کے صدارتی انتخابات کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیداواروں کے درمیان ہونے والے پہلے ٹیلی ویژن مباحثے کا نتیجہ رہا ہے اور بد اخلاقی کے لحاظ سے اسے امریکی تاریخ کا بدترین انتخابی مباحثہ قرار دیا جا رہا ہے۔

دو ہزار بیس کے انتخابی معرکے کے پہلے ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے ایک دوسرے پر تند و تیز لفظی حملے کیے اور جھوٹ، بد اخلاقی، نسل پرستی اور بیرونی ملکوں سے وابستگی کے سنگین الزامات عائد کئے۔

طے پایا تھا کہ یہ مباحثہ نامزد امیدواروں کی ماضی کی کاردگی کے تعارف اور کورونا وائرس، بے روزگاری، سلامتی، توانائی اور ماحولیات جیسی مشکلات اور بحرانوں سے نمٹنے کی غرض سے صدارتی امیدواروں کے منصوبوں اور ایجنڈے پر مرکوز ہوگا لیکن لاکھوں دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے ہونے والا یہ مباحثہ امریکی تاریخ کے بدترین توہین و تذلیل کے معرکے میں تبدیل ہو گیا۔

پورے مباحثے کے دوران دونوں ہی امیدوار ایک دوسرے کی بات کاٹتے رہے اور یہاں تک کہ انہوں نے میزبان کرس ولاس کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ مباحثے کو پرسکون طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔

سی این این نے اس مباحثے کے بارے میں ’پہلا مباحثہ، بھرپور جھگڑا‘ جیسا عنوان استعمال کیا جبکہ ایٹلانٹک جریدے نے جمہوریت کے لیے نفرت انگیز شب جیسی شہ سرخی لگائی۔ اے بی سی نیوز کے معروف صحافی جارج اسٹیفن پولس نے بھی اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ مباحثہ کسی ٹرین کے کچرے دان میں پڑی ہوئی گندگی تھی جو اب ٹرین سے باہر نکل رہی ہے۔

انسٹاگرام پر آپ ہمیں فالو کر سکتے ہیں

اس مباحثے نے واضح کر دیا ہے کہ امریکی سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ ناپید ہے اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے حتی ایک دوسرے کے اہل خانہ کے خلاف بھی ہر قسم کے الزامات اور اہانت سے گریزاں نہیں۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مباحثے کے میزبان کرس ولاس کا آخری سوال شکست کھانے والے امیدوار کی جانب سے انتخابی نتا‏ئج کو تسلیم کرنے کے بارے میں تھا۔ اس سوال کا پوچھا جانا ہی اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ امریکہ سیاسی اور سماجی بغاوت کی دہلیز پر کھڑا ہے اور یہ صورتحال اگر اسی طرح جاری رہی تو نام نہاد امریکی جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا۔

اس بات سے قطع نظر کہ امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں کے انتخابی دفاتر ایک دوسرے کو پہلے مباحثے کا مفتوح قرار دے رہے ہیں، اس سیاسی جھگڑے میں اصل شکست امریکی عوام کو نصیب ہوئی ہے جو غربت، بے روزگاری، بیماری اور تشدد کے بے لگام دیو سے نبرد آزما ہیں اور حمکران طبقے کے سیاسی جھگڑوں میں یومیہ شدت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ٹیگس