Oct ۰۴, ۲۰۲۰ ۲۲:۰۸ Asia/Tehran
  • کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران لوگوں کی نفسیاتی پریشانی کی وجہ سامنے آ گئی

امریکہ میں سامنے آنے والی ایک میڈیکل تحقیق میں بتایا گیا ہے کووڈ-19 کی بیماری سے ڈر، ذہنی تشویش اور غم جیسی کیفیات انسان کو موت کو یاد دلاتی ہیں اور اس وجہ سے اس کی نفسیاتی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے اسکڈمور کالج کے سماجی نفسیات کے پروفیسر شیلڈن سولومن کا کہنا ہے کہ جب انسان کے شعور میں حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں موت بھی ہوسکتی ہے تو اس پر بہت زیادہ دہشت کا غلبہ طاری ہوسکتا ہے۔

نیورو امیج نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس میڈیکل تحقیق میں بتایا گیا کہ ذہن میں موت کا خوف بس جانے پر لوگوں کے مختلف ردعمل سامنے آتے ہیں، جیسے خود کو محفوظ رکھنے کی شدید خواہش (کورونا وائرس کے دوران فیس ماسک پہننا یا ہاتھوں کو دھونا)، مکمل تردید (وائرس کو سازشی نظریہ قرار دینا یا خود کو یہ بتانا کہ آپ کا کوئی جاننے والا اس سے بیمار نہیں ہوا یا آپ تو نوجوان اور صحت مند ہیں) یا ذہن بھٹکانا۔

پروفیسر شیلڈن سولومن کا کہنا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران خریداری کی شرح میں اضافے اور ٹی وی دیکھنے کا دورانیہ بڑھنے پر حیران نہیں ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا ایسا پہلا موقع نہیں جسے دیکھ کر لوگوں کو موت یاد آ رہی ہے بلکہ گزشتہ عشروں میں لاکھوں افراد بیماریوں، قدرتی آفات اور مختلف وجوہات کے نتیجے میں چل بسے اور متعدد کو کسی پیارے کے کھونے کے تجربے کا بھی سامنا ہوا۔ مگر کورونا وائرس کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد گھروں تک محدود ہوگئے یا اب بھی ہیں، جس کے نتیجے میں سکون پہنچانے والا معمول متاثر ہوا اور موت کی تردید کرنے والے مشاغل رسائی سے باہر ہوگئے۔

ایسے افراد جو عارضی یا مستقل طور پر روزگار سے محروم ہوگئے، ان میں موت کی یاد دہانی بلاک کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔ اس میڈیکل تحقیق میں شامل پروفیسر جیف گرین برگ نے بتایا کہ جب آپ جسمانی خطرے سے خود کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن میں جاتے ہیں تو اس سے روزمرہ کے وہ معمولات متاثر ہوتے ہیں جو ہمیں نفسیاتی طور پر دنیا میں تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ جب لوگ معمول کے کام نہیں کرپاتے، وہ باہر نہیں جا پاتے اور دوستوں اور ساتھیوں سے کٹ جاتے ہیں تو نفسیاتی سیکورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

ٹیگس