Feb ۲۱, ۲۰۲۱ ۱۱:۰۴ Asia/Tehran
  • میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں میں شدت

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے اور بڑے پیمانے پر عوام جمہوریت کی بحالی کے لیے میدانِ عمل میں نکلے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمارمیں اقتدار پر قابض فوج کی جانب سے احتجاجی ریلیوں میں اضافے کے بعد نئے انتخابات کرانے اور کامیاب جماعت کو اقتدار سونپنے کے اعلان کے باوجود میانمار میں فوجی قبضے کے خلاف مظاہرے یکم فروری سے جاری ہیں اور گذرتے دن کے ساتھ مظاہرین کی تعداد بدستور بڑھتی جا رہی ہے اور مظاہرین کا مرکز تجارتی و تاریخی شہر رنگون ہے۔

میانمار فوج نے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں سے نمٹنے کے لیے اب طاقت کا استعمال بھی شروع کردیا ہے، جمعے کے روز ایک نوجوان خاتون سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھی۔

میانمار فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مظاہرین میں شامل شرپسندوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک پولیس اہلکار گزشتہ روز دوران علاج ہلاک ہوگیا۔

قابل ذکر ہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر آنگ سان سوچی سمیت پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو گرفتارکرلیا تھا۔

فوج نے ایک سال کے لئے ہنگامی حالات نافذ کردی اور اس کے بعد انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تاہم فوجی کودتا کے خلاف میانمار میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مظاہرین جمہوری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ ایسے میں ہے کہ اب سے کچھ عرصے پہلے تک آنگ سان سوچی کی حمکراں جماعت، فوج کے ساتھ مل کر میانمار کی مسلم اقلیتی آبادی روہنگیا کے خلاف برسر پیکار تھی اور انہوں نے مل کر روہنگیا کے غریب،  مظلوم اور نہتے عوام پر ہولناک اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے جس کے تحت کئی ہزار روہنگیا مسلمان نہایت دلخراش انداز میں قتل کر دیئے گئے جبکہ فوج اور حکومت کے انتہاپسندانہ اور ہولناک جرائم سے تنگ آکر تقریبا دس لاکھ روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

ٹیگس