روسی فوج کی پیشقدمی، بحر آزوف یوکرینی فوج کی دسترس سے باہر
یوکرین میں روسی فوج کی پیشقدمی جاری ہے اور اس نے بحر آزوف تک یوکرینی فوج کی دسترسی بند کردی ہے اس درمیان چینی صدر نے روسی صدر کے ساتھ ٹیلی فونی گفتگو میں کہا ہے کہ اس وقت جنگ کو جلد سے جلد ختم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔
یوکرین کے خلاف روسی فوج کا آپریشن پچیسویں دن بھی جاری ہے جبکہ روس کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اس نے یوکرین آپریشن کے آغاز سے اب تک یوکرین کے ایک سو چوراسی ڈرون اور ایک ہزارچارسو بارہ ٹینک اور بکتربندگاڑیاں تباہ کردی ہیں ۔
روسی فوج کا دعوی ہے کہ اس نے یوکرین میں ایک دن میں چھے کلومیٹراندر تک پیشقدمی کی ہے۔
دوسری جانب کیف نے ماریوپول سے اپنی فوج کو باہر نکالنے کی روس کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔
اس درمیان چین کے صدر شی جین پینگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیرپوتین کو اطلاع دی ہے کہ اس وقت سب سے بڑی ترجیح جنگ کوفورا ختم کرنا ہے۔
ولادیمیرپوتین نے اس سے قبل کہا تھا کہ مغرب کی غیرقانونی پابندیوں سے پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے بعد روس سرانجام مزید مضبوط اور خودمختار ہوکرابھرے گا۔
انھوں نے کہا کہ روس کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے اقتداراعلی کو مختصرمدت اقتصادی فائدے کے لئے خطرے میں ڈال دے
روس کے صدر ولادیمیرپوتین نے روس سے کریمہ کے الحاق کی سالگرہ کی مناسبت سے ایک تقریب میں اعلان کیا کہ کریمہ کے عوام نے نازیوں کے سامنے ایک مضبوط دیوار قائم کرکے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کریمہ کو یوکرین سے الگ ہونا ہی تھا کیونکہ یوکرین کا حصہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ توہین آمیز رویہ روا رکھا جا رہا تھا۔
روس سے کریمہ کے الحاق کے بعد ماسکو اور کیف کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ۔ روسی سرحدوں کے قریب فوج تعینات کرنے کا امریکہ اور نیٹو کا اقدام اور ان کی مداخلتیں ماسکو کے مشتعل ہونے اور جنگ کے شعلے بھڑکنے کا باعث بنیں۔
دوسری جانب روس کے قومی دفاعی کنٹرول سینٹر کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ یوکرینی انتہاپسند یوکرین کے شہریوں کو بدستور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
روس کے قومی دفاعی کنٹرول سینٹرکے سربراہ میزنتسیف نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یوکرینی انتہا پسند بدستور شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں کہا کہ اس وقت ستائیس لاکھ سے زیادہ یوکرینی ملک کو چھوڑ کر روس میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
روس نے اس جنگ کا مقصد دونباس کو غیرمسلح کرنا اوراپنی سرحدوں سے نیٹوکے فوجی خطرات کو دور کرنا بتایا ہے اور کہا ہے کہ اس کی فوجی کارروائی ، مشرقی یوکرین میں دونتسک اور لوہانسک کے صدور کی اپیل پرانجام پائی ہے۔
اس درمیان آسٹریا کی آئل گیس کمپنی کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا ہے کہ یورپی ممالک ، اپنی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے فوری طور پرکوئی ایسا متبادل تلاش نہیں کرسکتے جو روس کی جگہ پرکرسکیں۔
آسٹریا گذشتہ پچاس برسوں سے گیس کی اسّی فیصد ضرورت روس سے پوری کررہا ہے۔ روسی گیس، یورپ کے لئے نہایت سستی پڑتی ہے اورجس بڑی مقدار میں روس ، یورپ کو گیس فراہم کررہا ہے اس کا کوئی متبادل تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔
آسٹریا کی آئل گیس کمنپی کے سربراہ آلفرڈ اشٹائن کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی، اس کمپنی کے لئے جو گیس کی خریداری کے ذریعے روس کی مالی مدد کررہی ہے ، حیران کن تھی۔
اشٹائن نے مزید کہا کہ ہم سخت و مشکل حالات سے دوچار ہیں اور یورپ کے پاس اس وقت روسی گیس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔