جنگ یوکرین نے یورپ کو اقتصادی بحران کے دھانے پر پہنچادیا
یورپی یونین کی شماریاتی ایجنسی نے ، افراط زر کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ براعظم یورپ کے ملکوں کو بدترین اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے۔
فرانسیسی ٹیلی ویژن بی ایف ایم نے یورپی ایجنسی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بیشتر یورپی ملکوں کو افراط زر اور قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں زیادہ تر یورپی شہریوں میں اپنے اخراجات میں کمی اور سستی اشیا کی خریداری کا رجحان شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
رپورٹ میں پانچ یورپی ملکوں میں کرائے جانے والے رائے عامہ کے تازہ جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یورپی شہری افراط زر میں اضافے کی وجہ سے غیر ضروری اشیا کی خریداری سے گریزاں ہیں ۔
رائے عامہ کے اس جائزے میں شرکت کرنے والے کم سے کم ساٹھ فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ بجلی ، پانی، گیس، ٹرانسپورٹ، کھانا اور دوسری ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
سروے میں شریک چورانوے فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کے لیے غذائی اشیا کی خریداری دشوار ہوگئی ہے۔
دوسری جانب برطانوی وزارت خزانہ کے ایک اعلی عہدیدار سائمن کلارک نے کہا ہے کہ افراط زر کا گراف انتہائی پریشان کن اور انیس سو بیاسی کے بعد ہمیں افراط زر کی اتنی بلندی کا کبھی سامنا نہیں رہا۔
جرمنی کے محکمہ شماریات کا کہنا ہے کہ اسے انیس سو تہتر کے بعد سے، افراط رز کی سب سے اونچی شرح کا سامنا ہے جو اب سات اعشاریہ نو فیصد سالانہ کی حد تک پہنچ گئی ہے۔
ادھر ہنگری کے وزیراعظم ویکٹر اوربان نے خبردار کیا ہے کہ روس کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے دنیا اقتصادی بحران کے قریب پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ ہماری مشکلات کم نہیں ہیں، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، افراط زر کا گراف اوپر جارہا ہے اور روس پر پابندیوں کی وجہ سے یورپ ایک عالمی اقتصادی بحران کے قریب پہنچ گیا ہے۔
دوسری جانب یورپ کے ادارہ شماریات، یورو اسٹیٹ کے مطابق یورو کو بطور کرنسی استعمال کرنے والے انیس ملکوں میں افراط زر کی شرح اب تک کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یورو اسیٹیٹ ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی کے مہینے میں یورو زون کے ملکوں کو آٹھ فی صد سے زیادہ افرط زر کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ اپریل میں یہ سطح سات اعشاریہ چار فیصد کے برابر تھی۔
یورپی شماریاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں میں ایندھن اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تین کروڑ چالیس لاکھ سے زائد خاندانوں کی زندگی اور معیشت پر اثر پڑا ہے۔ یورو اسٹیٹ کے مطابق براعظم یورپ میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں سات فی صد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی ماہرین جنگ یوکرین کو اقتصادی گراوٹ کی اہم وجہ قرار دے رہے ہیں ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اقتصادی کساد بازاری اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے باعث یورپی سینٹرل بینک کو شرح سود میں اضافے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
میڈیا رپورٹوں اور اقتصادی جائزوں کے مطابق کورونا کی وبا نے یورپی ملکوں کی معیشتوں کو پہلے ہی کافی متاثر کیا تھا لیکن روس یوکرین جنگ اور یورپ کی جانب سے یوکرین کی بھرپور مالی، اسلحہ جاتی اور سیاسی حمایت کے باعث صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔
بعض یورپی ملکوں نے امریکی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے، روس سے تیل اور گیس کی خریداری روک دی ہیں حالانکہ ان کی معیشت پوری طرح روسی توانائی سے وابستہ رہی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے یورپ میں توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔