بورس جانسن حمایت نہ ملنے پرمایوس، کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ سے باہر
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔
سحر نیوز/ دنیا:موصولہ رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شامل نہ ہونے کا اعلان کر دیا۔
بورس جانسن کا کہنا ہے کہ پارٹی میں ہم آہنگی کے بغیر موثر طریقے سے حکومت نہیں کر سکتا، رشی سونگ اور پینی مورڈانٹ سے اس مسئلے پربات چیت کی، افسوس کہ مسئلے کا حل نہیں نکال سکا۔
اس اعلان سے قبل برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے ضروری حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں سرگرم تھے، جہاں دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی کی اہم شخصیات ان کے مخالف رشی سونک کی حمایت میں متحد ہوگئیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کی نمایاں شخصیات جنہوں نے پہلی بار بورس جانسن کے وزیر اعظم بننے کی حمایت کی تھی اب وہ سابق وزیر خزانہ رشی سوناک کی حمایت میں آگئی ہیں۔
جونیئر وزیر اسٹیو بیکر نے کہا کہ وہ رشی سوناک کی حمایت میں ووٹ دیں گے کیونکہ ملک اس ’سوپ اوپیرا‘ کی واپسی کا متحمل نہیں ہو سکتا جن کو رواں برس اسکینڈلز کے سلسلے میں عہدے سے فارغ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ بورس جانسن، پارلیمان کی پریولیجز کمیٹی کی تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں کہ کہیں انہوں نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ڈاؤننگ اسٹریٹ میں تقریبات میں شامل ہونے سے متعلق ہاؤس آف کامن سے جھوٹ تو نہیں بولا تھا۔
اس سلسلے میں جن وزرا نے پارلیمنٹ کو گمراہ کیا تھا وہ بھی ممکنہ طور پر مستعفی ہوں گے۔
رشی سونک، بورس جانسن اور پینی مورڈانٹ 100 قانون سازوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ ان میں سے کوئی ایک وزیر اعظم بن کر لز ٹرس کی جگہ لے سکے، جن کو منصب پر آنے کے 6 ہفتوں بعد ہی معاشی پروگرام میں ناکامی کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
بورس جانسن نے رواں برس جولائی میں اس وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جب وزیر خزانہ رشی سونک نے اپنا عہدہ چھوڑا تھا جس پر بڑے پیمانے پر ہلچل مچ گئی تھی اور بورس جانسن کے وزرا نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے۔