کینیڈا میں ایک بار پھر چالیس بچوں کی بے نام قبریں دریافت
کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے ایک اور بورڈنگ اسکول سے مزید چالیس بے نام قبریں دریافت ہوئی ہیں ۔ بے نام اور اجتماعی قبروں کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقات ایک سال قبل لواحقین کی درخواست پر شروع کی گئی تھیں ۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق یہ بے نام قبریں سینٹ آگسٹین اسکول اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں واقع ہیں۔
سحر نیوز/ دنیا: سینٹ آگسٹین بورڈنگ اسکول انیس سو چار سے انیس سو پچھتر تک کام کر رہا تھا اور اس میں پچاس مختلف مقامی اقوام وقبائل کے بچے زیر تعلیم تھے اور بعد کہا گیا کہ بہت سے بچے لاپتہ ہوگئے ہیں۔
اجتماعی قبروں کی دریافت کو کینیڈا میں مقامی قبائل کے ساتھ برطانوی سامراج کے غیر انسانی سلوک کی واضح مثال قرار دیا جارہا ہے۔
سن دوہزار اکیس میں بھی کینیڈا کے مختلف علاقوں میں واقع بورڈنگ اسکولوں سے سینکڑوں کم سن بچوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔
کلیسا کے زیر نگرانی چلنے والے ان بورڈنگ اسکولوں میں مقامی قبائل کے بچوں کو ان کے ماں باپ سے زبردستی جدا کرکے لایا جاتا تھا جس کا مقصد حکومت کی پالیسی کے تحت مقامی قبائل کا تشخص اور ان کی تہذیب کو نابود کرنا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق تقریبا ڈیڑھ لاکھ بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر ان بورڈنگ اسکولوں میں لایا گیا تھا اور یہاں انہیں بے انتہا بدسلوکی، غذائی قلت، جسمانی تشدد او حتی جنسی استحصال جیسے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔
اس بارے میں تحققیات کرنے والی کمیٹی نے سن دوہزار پندرہ میں برطانوی سامراج اور کلیسا کی ملی بھگت سے انجام پانے والے اس اقدام کو نسل کشی قرار دیا تھا۔
یہ معاملہ سن دوہزار اکیس میں ایک بار پھر اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب برٹش کولمبیا کے ایک بورڈنگ اسکول سے دو سو پندر بچوں کی باقیات دریافت ہوئی تھیں جو انیس سے اٹھہتر سے بند پڑا تھا۔
خیال کیا جارہا ہے کہ بورڈنگ اسکولوں میں ہزاروں ایسے مقامات ہوں گے جہاں مقامی باشندوں کے بچوں کو خفیہ طور پر دفن کیا جاتا رہا ہے۔
مقامی باشندوں کے کم سن بچوں کی اجتماعی قبروں کا معاملہ در اصل اس دور کی یاد دلاتا ہے جب یورپ سے شمالی امریکہ مہاجرت کرنے والوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کا منصوبہ بند استحصال شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ کینیڈا کی حکومت دنیا میں انسانی حقوق کی دعویدار بنی پھرتی ہے اور مغربی بالادستی کی مخالفت کرنے والے ملکوں کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے عالمی اداروں میں شور شرابا کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے۔ حالانکہ انسانی حقوق کے حوالے سے خود اس کا ریکارڈ انتہائی گھناونا اور تاریک ہے جس کے آثار وقتا فوقتا نمایاں ہوتے رہتے ہیں۔