عوام کے لئے کفایت شعاری اور بادشاہ کے لئے شہ خرچی، برطانوی عوام میں بڑھتا غم و غصہ
برطانیہ کے بادشاہ کی تاج پوشی پر ایسی حالت میں انیس کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوئے ہیں کہ باضابطہ اعداد و شمار کے مطابق، بیس فیصد برطانوی شہری خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سحر نیوز/ دنیا: بکنگہم پیلس اور ویسٹ منسٹر گرجا گھر کی سجاوٹ، شاہی بگھی کی تیاری، سیکڑوں مہمانوں کے لئے سیکورٹی کے انتظامات اور دسیوں ہزار فوجیوں کی تعیناتی، ان انتظامات کا محض ایک حصہ رہے جو چارلز سوم کی تاج پوشی کے موقع پر انجام دیئے گئے۔ ان انتظامات پر کم سے کم انیس کروڑ پاؤنڈ خرچ کئے گئے ہیں۔
تاج پوشی کی فوجی پریڈ اور تقریبات سے کچھ ہی فاصلے پر یعنی ٹرافالگر اسکوائر اور لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر ان برطانوی شہریوں نے بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جو اس بات کے قائل ہیں کہ ہر شعبے کی طرح بادشاہت کی نجکاری بھی ضروری ہے۔ ان مظاہرین نے ایسے بینر ہاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے جس پر درج تھا کہ چارلز ہمارے بادشاہ نہیں ہیں اور بادشاہت کا نظام ختم کرو۔
اس درمیاں ضروری اجازت فراہم ہونے کے باوجود برطانوی پولیس نے جمہوریت پسند بادشاہت مخالف ایک تنظیم کے سربراہ گراہام اسمتھ اور کم از کم ان کے پانچ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ آزادی اظہار کے دعوے دار برطانیہ کی پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ لوگ بادشاہی نظام کے خلاف افواہیں پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ نے برطانیہ میں آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی جانب سے تشویش ظاہر کی ہے۔
ادھر مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی برطانوی عوام کی بڑھتی معاشی پریشانی اور غربت کے بیچ خاندان سلطنت کی شہ خرچی کو عام شہریوں کے لئے ناقابل قبول بتایا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں رائے عامہ کے تازہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اٹھاون فیصد برطانوی شہری سلطنتی نظام کے مخالف ہیں اور اکیاون فیصد کا خیال ہے کہ تاج و تخت کے اخراجات برطانوی عوام کی جیب سے حاصل کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔
برطانوی عوام بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ انہیں ایسے دور میں کہ جب یوکرین کی جنگ کو ان کی معیشت پر برتری اور ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے انہیں کفائت شعاری کی ہدایت دی جا رہی ہے، بادشاہ اور ان کے تخت و تاج پر خرچ کی جانے والی رقم کی کوئی توجیہ نہیں پیش نہیں کی جا سکتی۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح، گذشتہ چالیس سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے تیرہ فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے جس کا زیادہ تر بوجھ بھی عام شہریوں پر ڈالا گیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں گذشتہ پینتالیس سال کی تمام حدیں پار کرچکی ہیں اور عام شہریوں کے زیراستعمال گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ برطانوی عوام کے ٹیکس سے یوکرین کو دی جانے والی امداد کی مالیت چالیس کروڑ پاؤنڈ پار کرچکی ہے۔