سلامتی کونسل اور بریٹن ووڈز نظام کی اصلاح پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تاکید
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے ہیروشیما میں گروپ سیون کے اجلاس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سلامتی کونسل میں بھی اور بریٹن ووڈو مالیاتی نظام میں بھی اصلاحات کرنے اور دنیا کے حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
سحر نیوز/ دنیا:اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ دونوں اداروں کہ جو انیس سو پینتالیس کی طاقت کے تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں، یعنی سلامتی کونسل اور بریٹن ووڈز سسٹم کی اصلاح ہونی چاہیے اور انھیں اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ڈھانچہ منسوخ شدہ، غیرمنصفانہ اور ناکارہ ہے۔ یہ مالیاتی ڈھانچہ کووڈ نائٹین کے پھیلاؤ اور یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والے اقتصادی جھٹکوں کا مقابلے کرنے میں ایک عالمی حفاظتی چینل کے طور پر اپنی افادیت اور اصلی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور میں اہم عالمی واقعات کے تناظر میں سلامتی کونسل اور عالمی مالیاتی نظام بریٹن ووڈز میں اصلاح کی ضرورت پر اہم ترین عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اعلی ترین عہدیدار کی تاکید انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
پہلے مسئلے یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاح کی ضرورت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس اہم عالمی ادارے میں اصلاح کا مطالبہ برسوں سے دنیا کے بہت سے اہم ممالک کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل کا موجودہ ڈھانچہ خاص طور پر اس کے مستقل ارکان کا ڈھانچہ دنیا کے اکثر ممالک کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک سلامتی کونسل میں جن تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں ان میں اس کونسل کے منشور میں اصلاح کرنا، ویٹو کے حق کو ختم کرنا اور اس کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
لیکن دوسرا مسئلہ کہ جس پر انتونیو گوتریش نے بھی تاکید کی ہے یعنی عالمی مالیاتی نظام بریٹن ووڈز میں اصلاح کی ضرورت ہے کہ جس کا دنیا کے ممالک نے کئی بار مطالبہ کیا ہے۔
بریٹن ووڈز وہ معاہدہ ہے کہ جو انیس سو چوالیس میں دنیا کے بڑے ملکوں کے درمیان طے پایا ، جس کے مطابق ڈالر کو دنیا کے زرمبادلہ کے ذخیرے یا عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
اس معاہدے نے ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی اورڈالر کو سونے کے متبادل کے طور پر عالمی کرنسی قرار دیا اور اس طرح عالمی اقتصادی میدان میں بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کی پوزیشن مضبوط اور پکی ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں خاص طور پر عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے قیام کے بعد عملا دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی سرکردگی میں مغرب کی عالمی اقتصاد اور تجارت پر اجارہ داری قائم ہو گئی۔
اس وقت نئی ابھرنی والی اقتصادی طاقتیں دوسری کرنسیوں کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں تبدیلیوں اور دو عالمی مالیاتی اداروں یعنی عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک میں تبدلیوں سمیت بین الاقوامی مالیاتی نظام میں تبدیلی کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔