Jan ۲۰, ۲۰۲۱ ۲۲:۱۱ Asia/Tehran
  • حکومت افغانستان اور طالبان کے درمیان اس گروہ کے قیدیوں کے حوالے سے بیان بازی۔ تبصرہ

قطر میں بین الافغان امن مذاکرت کے نئے دور کے انعقاد کے موقع پر، طالبان قیدیوں کی سرنوشت کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان گروہ کے درمیان بیان بازی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

افغانستان کے سینیئر نائب صدر امراللہ صالح نے بعض طالبان قیدیوں کی پھانسی پر زور دیا ہے جس کے بعد، طالبان گروہ کے ترجمان نے بھی افغانستان کی حکومت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کیئے جانے کی بابت خبردار کیا ہے۔

امراللہ صالح نے کہا ہے کہ افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران سلسلہ وار قتل کی وارداتوں میں اضافہ کی اصلی وجہ یہ ہے کہ قاتلوں کو سزائیں دینے کا کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے اور طالبان گروہ کے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ حتی جیل میں جانے کے بعد بھی ان کو سزائیں نہیں ملیں گی اور ان کو معاف کر دیا جائے گا۔

افغانستان کے نائب صدر نے ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ طالبان کے تشدد آمیز اقدامات کو روکنے کے لئے حتمی طور پر اس گروہ کے بعض قیدیوں کو موت کی سزا دی جانی چاہیے۔

امر اللہ صالح کے ان بیانیات کے ساتھ ہی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس اعلان کے ساتھ کہ قیدیوں کے بھی اپنے خاص حقوق ہوتے ہیں ، دھمکی دی ہے کہ اس گروہ کے قیدیوں کو پھانسی دیئے جانے کے فیصلے پر عمل درآمد، افغانستان کی حکومت کے لئے سخت نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

طالبان گروہ کے قیدیوں کی آزادی کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان گروہ کے درمیان تند و تیز بیانات کے تبادلے سے، نشاندہی ہوتی ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی تدوین میں امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں، افغان حکومت اور عوام کے لئے، کتنی زیادہ نقصان دہ ہیں۔

امریکہ نے فروری دو ہزار بیس میں طالبان کے ساتھ نام نہاد امن معاہدہ کیا اور دونوں فریق نے اُس پر دستخط بھی کیئے، مگر انہوں نے کابل حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کی ہماہنگی کے بغیر، امن معاہدے میں ایسی شق کو شامل کیا جس کے مطابق افغان حکومت طالبان گروہ کے قیدیوں کو بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے قبل رہا کرنے کی پابند ہوگی۔

یہ بات واضح تھی کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتے کو آخری شکل دینے سے پہلے طالبان قیدیوں کی رہائی کا موضوع، اس گروہ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے پر منتج ہوگا، لیکن بالآخر وائٹ ہاؤس اور بعض افغان حلقوں کے دباؤ اور بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے لئے زمین ہموار کرنے کے مقصد سے تقریبا پانچ ہزار طالبان قیدی افغانستان کی جیلوں سے رہا ہوئے۔   

افغانستان کے سینیئر نائب صدر کے بیان کے مطابق، حالیہ مہینوں میں طالبان قیدیوں کی رہائی کا تجربہ اس ملک کے لئے اچھا نہیں رہا  اور یہ قیدی رہائی کے بعد دوبارہ افغانستان میں قتل و غارتگری منجملہ سلسلہ وار قتل کے منصوبہ سازوں اور ان وارداتوں پر عمل درآمد میں ملوث رہے تاکہ کابل حکومت پر اپنے دباؤ کو بڑھائیں اور امن مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کریں۔

اسی بنیاد پر امراللہ صالح نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان گروہ کے وہ قیدی کہ جو ملک میں متعدد خطرناک جرائم میں ملوث رہے ہیں انہیں فوری پھانسی دی جائے تاکہ اس تصور کو تقویت ملے کہ دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث مجرموں کو ملک میں کیفرکردار تک پہنچایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان قیدیوں میں ایسے مجرم بھی ہیں کہ جن کو خطرناک جرائم کے ارتکاب میں موت کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران طالبان کے عقوبت خانوں میں قید سیکڑوں افغان فوجیوں اور عام شہریوں کو طالبان گروہ کی جانب سے موت سے ہمکنار کیا گیا ہے۔

افغانستان میں انجام پانے والے سروے کے نتائج سے نشاندہی ہوتی ہے کہ ملک کے اکثر عوام، مجروموں اور ملک کی سیکیورٹی کو خطرے سے دوچار کرنے والوں کو بلا تفریق سزا دیئے جانے کے خواہاں ہیں۔

ٹیگس