قصہ ملک فیصل کا
اس زمانے میں دنیا بھر کے اخبارات نے اپنے تجزئیوں میں لکھا کہ اس سازش کے پیچھے امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کا ہاتھ ہے
کسے معلوم تھا کہ سعودی عرب پر حکومت کرنے والے عبدالعزیز بن سعود کا بیٹا ملک فیصل ایک دن تیل کی عالمی منڈی کو دگرگوں کردے گا۔
۱۹۰۶ کو پیدا ہونے والے ملک فیصل نے بہت جلد اپنے باپ کے دربار میں ترقی کی اور اپنے بھائی کے دور حکومت میں سعودی عرب کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائر رہے۔ سیاسی اتار چڑھاو کے نتیجے میں جب ملک سعود کو حکومت چھوڑنا پڑی تو ملک فیصل نے سن ۱۹۶۴ میں سعودی عرب کی باگ دوڑ سنبھال لی۔
ملک فیصل نے حکومت سنبھالتے ہی ملک میں اصلاحات کا آغاز کردیا اور اپنے بھائی خالد کو اپنا ولیعہد بنا دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کا امریکہ سے نزدیکی رابطہ ہوجائے۔
ملک فیصل نے پورے عالم عرب کی رہبری حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس سلسلے میں اس وقت کے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کہ جو شام اور مصر پر مشتمل ایک متحدہ جمہوریہ عرب ملک بنانے کی کوشش کر رہے تھے کے ساتھ مقابلے پر اتر آئے۔ لیکن ۱۹۶۵ کو یمن میں ہونے والے ایک اجلاس میں دونوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔
ملک فیصل کو ۱۹۷۳ میں عرب ممالک اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد انکی جانب سے عرب ممالک کو مغربی ممالک کو تیل فروخت نہ کئے جانے کے لئے آمادہ کرنے سے بہت زیادہ شہرت ملی۔ اس سلسلے میں تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں اور امریکی اور یورپی کمپنیوں کو تیل کی فروخت روک دی گئی۔
یہ سلسلہ بہت دنوں تک نہیں چل سکا اور ملک فیصل کو ۲۵ مارچ ۱۹۷۵ کو انکی گیارہ سالہ دور حکومت کے بعد ۶۹ سال کی عمر میں قتل کر دیا گیا اور انکے بھائی خالد نے حکومت سنبھال لی۔
اس زمانے میں دنیا بھر کے اخبارات نے اپنے تجزئیوں میں لکھا کہ اس سازش کے پیچھے امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کا ہاتھ ہے۔