سانحہ منیٰ - چوتھا حصہ
محترم سامعین کی خدمت میں منی میں گزشتہ سال رونما ہونےوالے سانحہ کے حوالے سے خصوصی پروگرام لےکرحاضر ہیں ۔
سامعین گزشتہ پروگرام میں ہم نے گزشتہ سال حج کےدوران رونما ہونے والے دواہم سانحات یعنی مسجدالحرام میں کرین گرنے اور منی میں زائرین خانۂ خداکے قتل عام کی مختصر وضاحت آپ عزیز سامعین کی خدمت میں پیش کی تھی اس پروگرام میں ہم گزشتہ سال حج سے مشرف ہونے والے اور ان واقعات کےایک عینی شاہد محترم "محمد" صاحب سے ان حادثات کی تفصیل سنتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں" ہم لوگ رسول خداۖ کے شہر "مدینہ" پہنچے ۔ ہم لوگ مسجد النبی ۖ کی زیارت اوراس میں داخل ہونے کے مشتاق تھے۔ کارواں کے مذہبی پیشوا مسجد کے صحن میں اس مسجد کی مختصر تاریخ ، خصوصیات اور فضائل سے حاجیوں کو آگاہ کررہے تھے لیکن ہوتایہ ہے کہ فورا ہی سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکار وہاں آجاتے ہیں اور ہمارے اجتماع کو منتشر کردیتے ہیں۔ یہ سعودی سیکورٹی اہلکار نہ معلوم کیوں ہم حاجیوں کو ایک جگہ اکٹھّا ہونے سےروکتے اور مسجدالنّبی کے بارے میں حاجیوں کے کارواں کے مذہبی رہنما کی باتوں کو سننے سے منع کرتے ہیں۔ اس کے بعد کے دنوں میں بھی شہر مدینہ اور اس کے اطراف کے تاریخی اور مذہبی مقامات دیکھنے اور زیارت کے لئے جانےوالے حاجیوں کے ساتھ سعودی سیکورٹی اہکاروں کی جانب سے اسی قسم کا سلوک بدستور روا رکھّا جاتاہے۔ ان کے اس طرح کے رویّوں سے یوں لگتاہے جیسے پورے مدینہ میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
زائرین کوحتی مسجد النّی کے اندر بھی سعودی سیکورٹی فورسز آرام وسکون سے نہیں رہنے دیتیں نیز بندوبست اور نظم ونسق کی برقراری کے بہانہ برسوں سے رسول اکرمۖ کی زیارت کےمنتظراور مشتاق زائرین کو مذہبی مراسم کی بجاآوری اور دعاؤں سےروکتی ہیں۔ سعودی سیکورٹی اہلکار، زائرین کرام کو پیغمبراکرمۖ کے روضۂ اقدس کے قریب جانے سے روکتے ہیں اوربیچارے زائرین مایوسی کے ساتھ اورسعودی سیکورٹی کے خوف سے دور سے ہی پیغمبر خداۖ پر درودو سلام بھیجتے ، ان سے دعا مانگتے اور پھروہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔
قبرستان بقیع میں جہاں اہم اور بزرگ اسلامی شخصیات مدفون ہیں سعودی سیکورٹی اہکاروں کی جانب سے روک ٹوک ، اور سختیاں زیادہ ہیں۔ حضرت رسول خدا ۖ کی بعض بیویاں، اولادیں، آپ کے ایک چچا اور دوچچازاد بھائیوں کے علاوہ آپ کی پاکیزہ نسل سے چار ائمّۂ معصومین جیسی دیگر اہم شخصیتوں کی قبریں بھی اسی قبرستان بقیع میں موجود ہیں اور 1926 عیسوی تک ان مزاروں پر ضریحیں اور قبّےبھی موجود تھے لیکن وہابیوں نے اپنے غلط اور بے بنیاد عقائد وافکار کی بنیاد پر ان مزارات مقدسہ کو منہدم اور ویران کردیا۔
اب صرف مردوں کو مقررہ اوقات میں قبرستان بقیع میں جانے کی اجازت ہے لیکن مزاروں پر کھڑے ہونےاور دعامانگنے پر پابندی ہے ۔ ائمّۂ اطہار کے ویران مزاروں پر ٹھہرنے پر مزید پابندی عائد کی جاتی ہے حتی شیعہ زائرین کو سعودی سیکورٹی اہکاروں کی دھونس دھمکی کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے ۔ سعودی عرب میں مذہبی آزادی کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے بلکہ وہابیت ہے جوعملی طور پر مکہ اور مدینہ میں اپنے گمراہ کن عقائد ونظریات کی تبلیغ وترویج کررہی ہے ۔
سامعین، محترم "محمد" صاحب حج کی داستان بیان کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں" مدینۂ منوّرہ میں چند دنوں کے قیام کے دوران رسول اکرمۖ کے روضۂ اقدس اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارتوں میں سعودیوں کی جانب سے حائل رکاوٹوں کا سامنا کرنےکے بعد اور ناگوار یادیں لےکرہم لوگوں نےرسول اکرم ۖ کے شہر مدینۂ منوّرہ کو مکۂ معظّمہ جانے کے ارادہ سے ترک کردیاتھا اور شہرمکّہ (جسے خداوند متعال نےقرآن مجید میں مقام امن قرار دیاہے) پہنچ کرمسجد الحرام جانے کے لئے ہم لوگ تیار ہوئے ۔ پھر اپنے کاروان کے دوسرے اراکین کے ہمراہ مشتاقانہ بیت اللہ اور خانۂ کعبہ کی حامل مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوگئے ۔ مسجد الحرام کے صحن میں داخل ہوتے ہی خانۂ کعبہ کی عظمت وشان وشوکت ہر ایک کومسحور اور اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے لیکن کچھ دیر بعد مسجد الحرام کے اطراف سعودیوں نے جوچند برسوں کے دوران بلند وبالا عمارتیں تعمیر کی ہیں وہ ہمارے ذہنوں کو منتشر کردینے کا باعث بن گئیں۔ اتنی اونچی اونچی بلڈنگیں اور عمارتیں معلوم نہیں کیوں اور کس مقصد کے تحت مسجد الحرام کے اتنے قریب تعمیر کی گئی ہیں؟ ہم لوگ خانۂ کعبہ کے طواف اور نماز ودعا کے بعد مسجدالحرام سے اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوگئے ابھی وہاں سے کجھ ہی دور پہنچے تھے کہ اچانک ایک خوفناک آواز نے ہم سب کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا ۔ یہ مہیب اور ڈراؤنی آواز مسجدالحرام کے اندر سے آئی تھی ہم سب لوگ مسجدالحرام کی طرف دوڑ پڑے اور اندر پہنچ کر وہ منظر دیکھنے میں آیا جس کا یقین نہیں آرہاتھا۔ مسجد الحرام کے مشرقی حصہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے مسجد کی چھت پرایک بہت بڑی اور بھاری کرین گرپڑی تھی اس سانحہ میں بڑی تعداد میں مظلوم حاجی اور زائرین خاک وخون میں غلطاں ہوگۓ تھے۔ سانحہ اس قدر دردناک تھا کہ بعض زائرین کرین کے نیچے کچلے ہوئے تھے اور بعض کے ہاتھ پاؤں ان کے جسم سے جدا ہوچکے تھے ۔ ہم لوگ فورا ہی زخمیوں کی مدد میں لگ گئے لیکن ہمیں زخمی زائرین کی مدد ونصرت کا زیادہ موقع نہیں مل سکا سعودی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے تمام زائرین کو مسجدالحرام سے باہر نکال دیا اوروہ کسی کو بھی اس دردناک سانحہ کی تصویر کھینچنے اور اس کی فلم بنانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ اس دردناک منظر کو دیکھنے کے باعث کئی دنوں تک ہماری حالت ناسازاور طبیعت مکدّررہی۔ ۔سعودی حکومت نے اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے زائرین کی تعداد 107اعلان کی ہے اور سیکڑوں دیگر زخمی ہوگئے۔ معمول کے مطابق سعودی حکام نے اس سانحہ میں اپنی کوتاہی اور بد انتظامی کی پردہ پوشی اور اپنےکو بے ظاہر کرنے کے لئے تیزہوا اور خدا کی مرضی کو اس دردناک سانحہ کے اسباب میں قرار دیا۔