Dec ۲۰, ۲۰۱۵ ۱۸:۱۵ Asia/Tehran
  • عراق سے فوجی انخلاء کے بارے میں ترکی کا دعوی
    عراق سے فوجی انخلاء کے بارے میں ترکی کا دعوی

ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ، عراق میں ایک سو دس کلو میٹر اندر اور صوبے نینوا کے علاقے بعشیقہ سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس بیان میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم میں حکومت عراق کے ساتھ ترکی کے تعاون کی آمادگی پر تاکید کے ساتھ ساتھ اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ عراق میں ترک فوجیوں کی موجودگی کا مقصد، داعش گروہ کے خلاف جنگ کے لئے رضاکار فورسز کو تربیت دینا ہے۔

تین دسمبر کو موصل کے شمال مشرق میں چالیس کلو میٹر اندر واقع علاقے بعشیقہ میں ترکی کے بارہ سو فوجیوں کے داخل ہونے کے بعد انقرہ اور بغداد کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوا اور حکومت عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے شکایت کرتے ہوئے ترکی کے اس اقدام کو عراق کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں اس کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ، اپنے قانونی فرائض پر عمل کرے اور انقرہ کے اقدام کی مذمت میں قرارداد منظور کرتے ہوئے عراق سے اس کے فوجیوں کے غیر مشروط انخلاء کا مطالبہ کرے۔

درحقیقت عراق پر لشکر کشی سے متعلق ترکی کے اقدام پر اس حد تک منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کو بھی مجبور ہوکر ترکی سے مطالبہ کرنا پڑا کہ وہ، کشیدگی کے خاتمے کی غرض سے عراق سے اپنے فوجی واپس بلائے۔

البتہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ترک فوجی، عراق سے واپس بلا لئے جائیں گے یا موصل سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے شمالی عراق میں کرد آبادی کے علاقے تک محدود ہوں گے۔

عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری کا کہنا ہے کہ ترکی نے موصل میں صرف اپنے ٹھکانے تبدیل کئے ہیں اور شمالی عراق سے ترک فوجیوں کا انخلاء عمل میں نہیں آیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کم از کم روس کی موجودگی، عراق سے فوجی انخلاء کے لئے ترکی پر دباؤ کا ایک عامل شمار ہوتی ہے، اس کے علاوہ ترکی نے عالمی سطح پر سیاسی مقام حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر یہ ملک، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن ملک کی حیثیت سے اپنا انتخاب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

ترکی نے صرف ساٹھ ووٹ حاصل کئے ہیں اور اس کی اس ناکامی کو، ترکی کی ڈیپلومیسی کی بڑی شکست شمار کیا جا رہا ہے۔

جبکہ سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت کے حوالے سے ترکی کے حریف ممالک یعنی اسپین، ملائیشیا، ونزئیلا، انگولا اور نیوزیلینڈ، دو ہزار پندرہ اور سولہ کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت کے حصول میں ترکی کی ناکامی کی وجہ، داعش دہشت گروہ کے مقابلے میں اس کا لیت و لعل سے کام لینا ہے اور یہ مسئلہ، عالمی سیاسی حلقوں میں ایک غور طلب مسئلہ بنا ہوا ہے۔

مشرق وسطی کے حالات منجملہ شمالی عراق پر ترکی کی لشکر کشی، روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں کشیدگی اور ترکی کی جانب سے داعش دہشت گرد گروہ کی حمایت کے بعض پہلوؤن کے آشکارا ہونے کی وجہ سے یہ تمام مسائل اور زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔

حال ہی میں اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویتالی چورکین نے اعلان کیا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ، روزانہ پندرہ لاکھ ڈالر کا تیل، اسمگل کرتا ہے جس کا قابل غور حصہ ترکی کو بھی جاتا ہے۔

روس کی اس رپورٹ کے مطابق شام و عراق کا یہ تیل، ترکی کے کچھ واسطوں سے اسمگل ہوتا ہے اور یہ تیل، آئل ٹینکروں سے ترکی منتقل کیا جاتا ہے اور یہ آئل ٹینکر، شام و ترکی کی سرحدوں پر آزادانہ طور پر آمد و رفت کرتے ہیں۔ا

لبتہ روسی لڑاکا طیاروں کے حملے، داعش کے ہاتھوں شام کے تیل کی اسمگلنگ میں کافی حد تک کمی آنے کا باعث بنے ہیں۔

چنانچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کو عالمی سطح پر اپنا سیاسی وقار بنانے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں میں اپنی غیر مستقل نشست بنانے جیسے مقاصد کے حصول میں بہت زیادہ کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

البتہ اس مقصد کےحصول کی ایک بہترین راہ، دیگر ملکوں خاص طور سے عراق جیسے پڑوسی ملکوں کے قومی اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزی سے گریز ہے۔

ٹیگس