Jul ۰۷, ۲۰۲۵ ۲۱:۱۲ Asia/Tehran
  • مغربی ایشیا میں کچھ بڑا ہونے والا ہے، واشنگٹن میں دو بڑے شیطانوں کی ملاقات پر تجزیہ نگاروں کی رائے

نتن یاہو کے دورہ امریکہ کا مقصد غزہ میں ممکنہ جنگ بندی، ایران کے خلاف امریکہ کو جنگ میں جھونکنے کی کوشش کے علاوہ داخلی بحران اور بدعنوانی کے مقدمات سے بچنے کے لیے حالیہ جنگ میں محدود کامیابیوں کو بڑی فتح کے طور پر پیش کرنا ہے۔

سحرنیوز/دنیا: 7 جولائی کو بنیامین نتن یاہو نے بن گوریان ایئرپورٹ سے واشنگٹن کے لیے پرواز بھری۔ یہ ان کا ایک اور دورۂ امریکہ ہے، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد غزہ میں ممکنہ جنگ بندی، ابراہیم معاہدے کو وسعت دینا، اور سب سے بڑھ کر امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش ہوسکتا ہے۔  اگرچہ اس وقت سعودی عرب کی جانب سے ابراہیم معاہدے میں شمولیت کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اس کی شمولیت کے لیے یورینیم کی افزودگی کا حق، غزہ میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے جیسے کلیدی مطالبات کا ماننا پڑے گا۔ اس کے برعکس بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شام، لبنان یا قطر جیسے ممالک کی شمولیت کا امکان زیادہ ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتن یاہو اس ملاقات کے دوران صرف غزہ یا ایران سے متعلق امور پر بات نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنے چار بدعنوانی کے مقدمات بند کروانے، کابینہ سے مذہبی شدت پسند جماعتوں کے نکلنے کی صورت میں حکومت کو بچانے اور عراق میں مزاحمتی تحریکوں سے نمٹنے جیسے موضوعات بھی چھیڑ سکتے ہیں۔ بتا دیں کہ دائیں بازو کے اس رہنما کی کوشش ہے کہ مرکزی ذرائع ابلاغ کے سہارے خود کو حالیہ ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں فتح یاب کے طور پر پیش کرے اور تل ابیب کی چند محدود اور عارضی کامیابیوں کو ایک بڑی اسٹریٹجک فتح کے طور پر ظاہر کرے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ ان کے حامی ہیں، لیکن نتن یاہو کے لیے مستقبل کا راستہ اتنا ہموار نہیں ہے۔

ادھر اسرائیل کی انتہا پسند دائیں بازو کی قوتیں، جیسے ایتمار بن گویر، کھلے عام نتن یاہو پر تنقید کر رہی ہیں۔ وہ جارحانہ زبان استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو جنگ بندی کی بجائے حماس کی مکمل تباہی کے مقصد کو پوری قوت سے آگے بڑھانا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آیا نتن یاہو کی حکومت میں یہ اختلافات واقعی ہیں یا محض دکھاوے کے لیے، اپوزیشن لیڈروں جیسے یائیر لاپید نے نتن یاہو کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر انتہا پسند عناصر کابینہ سے علیحدہ ہو جائیں تو وہ فوراً حکومت میں شامل ہو جائیں گے تاکہ غزہ میں باقی رہ جانے والے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا راستہ ہموار ہوسکے۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس مرحلے پر جنگی ہتھکنڈوں جیسے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اور داخلی تفرقہ پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ غزہ کے عوام کی مزاحمت کو توڑا جاسکے اور انہیں غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے تل ابیب حماس کو ایک امن مخالف اور غیر منطقی فریق کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس پر الزام آئے کہ وہ غیرحقیقی مطالبات کے ذریعے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

اسی دوران بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ گزشتہ 21 مہینوں کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ جب بھی نتن یاہو یا اس کی حکومت کے اعلی حکام نے واشنگٹن کا رخ کیا، مغربی ایشیا میں کوئی بڑا واقعہ ضرور پیش آیا ہے جیسے کہ ایران کے قونصل خانے پر حملہ یا حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے خلاف ممکنہ کارروائیاں۔ یہ سب واشنگٹن اور تل ابیب کے گہرے اشتراک کی عکاسی کرتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صیہونی حکومت مشرق وسطی میں مسلسل جنگوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اب ان جنگوں کو موجودہ حالات میں ختم کرنا نہیں چاہتی۔ اسی بنا پر غزہ میں جنگ بندی یا ابراہیم معاہدے کی توسیع جیسے موضوعات کو فریب کی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ یمن، عراق، لبنان یا حتی کہ ایران کے خلاف کوئی نیا حملہ یا سازش رچائی جاسکے۔

ٹیگس