Jun ۲۸, ۲۰۱۶ ۱۷:۲۷ Asia/Tehran
  •  ترکی کے صدر کی روسی صدر سے معافی

کرملین کے ترجمان نے خبر دی ہے کہ ترکی کے صدر نے شام اور ترکی کی سرحد کے درمیان روس کا جنگی طیارہ مار گرائے جانے کی بابت معافی مانگ لی ہے-

کرملین کے ترجمان دمیتری پسکوف نے کہا ہے کہ اردوغان نے پوتین کے نام ایک پیغام میں اس طیارے کے پائلٹ کی ہلاکت پر اس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہر وہ کام انجام دینے پر تاکید کی ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی میں مددگار ہو سکتے ہیں-

روس اور ترکی کے تعلقات گذشتہ برس دو نومبر کو اس وقت خراب ہو گئے جب ترک فضائیہ نے شام کی فضاؤں میں پرواز کرنے والے ایک روسی جنگی طیارے کو مار گرایا تھا-

ماسکو نے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ترکی پر کچھ پابندیاں عائد کردیں اور روسی سیاحوں نے بھی ترکی کا سفر کرنا ترک کر دیا اس وقت روس کے صدر نے اعلان کیا کہ ترکی پر عائد پابندیاں اسی وقت ختم ہو سکتی ہیں جب انقرہ ماسکو سے معافی مانگے- اور اب اس وقت ترکی کے صدر اردوغان نے ایک سرکاری خط میں روس سے معافی مانگ لی ہے-

ترکی کے اقتصاد پر روسی پابندیوں کے شدید دباؤ کی بنا پر ماسکو سے انقرہ کی معافی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی ، لیکن جس چیز نے سیاسی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے وہ روس سے ترکی کی معذرت خواہی کے ساتھ ہی صیہونی حکومت کے ساتھ ترکی کے تعلقات معمول پرلانے کے معاہدے کا اعلان ہے-

بظاہر چھ سالوں کے بعد ستائیس جون کو صیہونی حکومت اور ترکی کے تعلقات، معمول پر لانے کے سمجھوتے کی خبر، ترک اور صیہونی حلقوں کے ذرائع ابلاغ کی سب سے اہم خبر میں تبدیل ہوگ‏ئی تاہم ترکی کے حکام نے کوشش کی ہے کہ روس سے ترکی کے معافی مانگنے اور تل ابیب و انقرہ کے تعلقات معمول پر آنے کے سمجھوتے کا موضوع یورپین فٹبال کپ کے ہنگاموں میں کہ جس نے علاقے کے ممالک اور ترکی کے معاشرے کی رائے عامہ کے ایک حصے کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے، دب جائے اور ترکی اور خود اردوغان کو اس کی کم سے کم قیمت چکانی پڑے -

دوسری جانب ایسا نظر آتا ہے کہ انقرہ کے حکام ، اسرائیل کی جانب سے مرمرہ بحری جہاز کے واقعے پر ترکی سے معافی مانگنے اور پوتین سے اردوغان کی معافی سے کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں-

اس کا ایک مقصد تو پوتین سے اردوغان کے معافی مانگنے پر مجبور ہونے کی تلخی کو کم کرنا ہو سکتا ہے- ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ اعلان ، انقرہ کے حکام کو منطق کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں بیان کرنے میں مدد کر سکتا ہے-

ترکی کے حکام کا خیال ہے کہ بنیادی طور پراسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کا ترکی کا رویہ اور اردوغان کی اپنے روسی ہم منصب سے معافی، علاقائی کھلاڑیوں اور عالمی برادری کے ساتھ انقرہ کی نام نہاد صلح پسندانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی علامت ہو سکتی ہے لہذا اس تناظر میں انقرہ کے حکام کو امید ہے کہ انقرہ اور تل ابیب کے درمیان آشتی کا سمجھوتہ ، ترکی کے لئے، عالم عرب، عوام اور فلسطینی گروہوں کے درمیان کم سے کم سیاسی نقصان کا حامل ہو گا-

ہرچند کہ یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ اردوغان کو اپنے اصلاحاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے منجملہ اپنے ملک کے موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں اندرون ملک در پیش خفیہ و آشکارا مخالفتیں نیز شام کے حالات میں ترکی کی سیاسی ناکامیوں کی وجہ سے وہ ایسے طریقے اور روش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو خارجہ پالیسی کی تمام ناکامیوں اور اپنے داخلی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں درپیش مسائل و مشکلات کو پس پشت ڈال دے -

ٹیگس