Aug ۱۶, ۲۰۱۹ ۱۴:۲۰ Asia/Tehran
  •  امریکہ اور برطانیہ کی ایک اور رسوائی

ایران کی موثر سفارت کاری اور جبل الطارق ریجن کی عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد آخر کار ایران کا تیل بردار بحری جہاز گریس ایک برطانوی قبضے سے چھوٹ کر آزاد سمندری حدود میں واپس آگیا ہے۔

جبل الطارق کی عدالت عالیہ نے جمعرات کے روز امریکہ کی جانب سے ایرانی بحری جہاز کو روکنے اور حتی امریکہ کے حق میں ضبط کرلیے جانے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، اسے چھوڑ دینے کا حکم دیا۔
جبل الطارق ریجن کی عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ برطانیہ کی ایک اور شکست اور امریکہ کی بڑی رسوائی ہے کیونکہ مذکورہ عدالت میں دائر کی جانے والی امریکی درخواست کے ذرائع ابلاغ میں آجانے سے ٹرمپ انتظامیہ کو رائے عامہ کے درمیان ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایران کی جانب سے برطانوی شرائط مسترد کیے جانے کے باوجود عدالتی حکم کے ذریعے ایرانی تیل بردار بحری جہاز کی آزادی نے ایک بار پھر سفارت کاری کے میدان میں ایران کی برتری کو واضح کردیا ہے۔
آبنائے جبل الطارق میں ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو روکنے کے حوالے سے برطانوی رائل بحریہ کا غیر قانونی اقدام، حکومت برطانیہ کے لیے اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہا تو دوسری جانب ایران نے آبنائے ہرمز میں برطانوی بحری جہاز کو قانونی طور پر روک کر امریکہ اور برطانیہ کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تہران ہر قسم کی لاقونیت کا مقابلے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف بارہا یہ بات زور دے کر کہتے رہے ہیں کہ ایرانی بحری جہاز روکنے کا برطانونی اقدام عالمی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اور تہران اس پر خاموش نہیں رہے گا۔
وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے جمعرات کے روز اپنے ٹوئٹ میں ایک بار پھر یورپی یونین کی پابندیوں سے متعلق برطانوی وزارت خارجہ کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ" کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی کیونکہ گریس-ایک بحری جہاز کو روکا جانا سوفی صد غیر قانونی تھا"حکومت برطانیہ نے دعوی کیا تھا کہ ایرانی تیل بردار بحری جہاز گریس-ایک شام کی جانب جارہا تھا اور اس کا یہ اقدام شام پر یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ شام کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کا اطلاق ایران پر نہیں ہوتا اور دوسرے یہ کہ پہلے ہی دن واضح کردیا گیا تھا کہ مذکورہ بحری جہاز کی منزل شام نہیں ہے۔آبنائے جبل الطارق اور آبنائے ہرمز میں تیل بردار بحری جہازوں کے ان واقعات سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ کی حمایت کے سائے میں حکومت برطانیہ کے سیاسی اور غیرقانونی اقدامات کا خلیج فارس کے علاقے میں ایران کے قانونی اور صحیح اقدامات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔آبنائے جبل الطارق میں برطانیہ کی بحری قزاقی، بین الاقوامی سمندری قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی اور اس کے برخلاف آبنائے ہرمز میں ایران کی جانب سے برطانوی تیل بردار بحری جہاز کو روکا جانا جہازرانی کے عالمی قوانین کے عین مطابق تھا۔یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں جہازرانی کی سلامتی میں اہم اور فیصلہ کن کردار رکھنے والے ملک کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران، قانون پر علمدرآمد کے معاملے کو برطانیہ کے سیاسی کھیل کی نذر نہیں کرے گا۔
ایرانی تیل بردار بحری جہاز گریس ایک کے بارے میں آبنائے جبل الطارق ریجن کی عدالت عالیہ کا فیصلہ تیل بردار بحری جہازوں کے معاملے میں ایران کے مقابلے میں برطانیہ کی ناکامی شمار ہوتا ہے۔

ٹیگس