تحجر، سامراج اور صیہونیت کے مثلث کو، عوامی بیداری برداشت نہیں!
فرزند رسول امام علی رضا علیہ السلام کے روضے اور اس سے متعلقہ ادارے ’آستان قدس‘ کے متولی نے، نائیجریا کے شہر زاریا میں شہید ہونے والوں کی پانچویں برسی کے موقع پر ایک اہم اور تفصیلی بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نےنائیجیریا کی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے تحجر، سامراج اور صیہونیت کے ٹرائیکا کو اقوام عالم کی بیداری کی راہ میں بنیادی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
آستان نیوز نے ’آستان قدس رضوی‘ کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی کا بیان شائع کیا ہے جو اس طرح ہے:
بسمالله رب الشهداء و الصدیقین
خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (عنکبوت / 69) جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہيں ہم انہيں ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہيں اور بلاشبہ اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اسی طرح ارشاد ہے: وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِی سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ (آلعمران / 169) اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو ہرگز مرا ہوا نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار سے رزق حاصل کرتے ہيں ۔
(فرزند رسول) امام رضا علیہ السلام کے مقدس روضے سے ہم تمام شہداء، حق و انصاف پسندوں اور خاص کر زاریا کے قابل فخر شہداء کو سلام کرتے ہيں اور ان کے لئے علو درجات اور مغفرت کی دعا کرتے ہيں نیز عظیم عالم دین ، اتحاد بین المسلمین کے نقیب، زاریا کے مظلوم اور نائجیریا کے شیعوں کے رہنما شیخ ابراہیم زکزاکی کے رہائي کے لئے دعا گو ہيں اور خداوند عالم سے دعا کر رہے ہیں کہ پر امن ، انصاف پسند تحریک اور اس کے شہداء کے لا زوال کارنامے ہمیشہ قائم رہے۔
زاریا کے شہداء کو یاد کرنا، شعائر اسلامی کے تذکرہ کا مصداق ہے کیونکہ شہید اور شہادت کا مرتبہ، خدا کے نزدیک بہت اعلی ہے اور شہداء، سماج میں ایثار، قربانی اور استقامت و پامردی کے کلچر کو رائج کرنے والے اور توحید و انصاف کا پرچم بلند کرنے والے ہوتے ہيں اور پوری تاریخ میں ہمیشہ شہداء، پاک طینت و عقل رکھنے والے انسانوں کی نظر میں قابل تحسین و ستائش رہے ہيں۔
اس راہ پر چلتے والے زاریا کے شہداء کے خون سے، خواب غفلت میں پڑے نائیجریا اور سو رہی دنیا کی نیند کھل گئي اور انصاف و حق پسندی کی دل تک پہنچنے والی اس خون کی پکار، تاریخ میں درج ہو چکی ہے۔ زاریا کے پاکیزہ جیالوں کی شہادت در اصل، حریت، شجاعت، نعرہ ابراہیمی اور اخوت و اتحاد کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم کے اعلان کی گونج ہے جو نائیجریا میں ادیان ابراہیمی کے پیروکاروں کے کانوں تک پہنچی اور منطق، مذہبی رواداری اور قومی اتحاد کے خدوخال کو پوری دنیا کے سامنے واضح کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان شہیدوں کے خون کی برکت سے زاریا، افریقا کا نگینہ بنا اور ان کی شہادت، نائیجریا کی عصر حاضر کی تاریخ میں سنگ میل بنی۔
زاریا کے شہداء کے خون کا ایک دوسرا رخ، ان لوگوں کی جانب سے تحجر پسندی، فکری جمود، تشدد، اخلاقی انحطاط اور انسانی حقوق کی خلاف ورزي کا ثبوت ہے جن کے ہاتھ، ان شہیدوں کے خون سے آلودہ ہیں اور خدا کی جستجو میں رہنے والوں کے سلسلے میں ان کا رویہ ہمیشہ، دھمکی، تخریبی اقدامات، قتل و غارت گری اور ان پر ظلم کے علاوہ کچھ نہيں ہوتا۔
جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے: (وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ): بروج / 8؛ ان مومنوں کا کوئي قصور نہيں تھا سوائے یہ کہ وہ عزیز و قابل ستائش خدا پر ایمان لے آئے تھے۔
لیکن ان ظالموں کو جان لینا چاہئے کہ انسانی تاریخ و نظریات کے تیسرے ہزارے میں سب کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ قتل عام و خون خرابہ، تشدد و جلاوطنی، جہالت کی پیروی کا واضح ثبوت ہے اور یہ کوئی ایسا عنصر نہیں کہ جس پر فخر و مباہات کیا جا سکے، بلکہ ان لوگوں کی سیاہ تاریخ میں ایک دھبہ ہے اور یقینا ان لوگوں کے افکار و نظریات اور کردار کی بنیادیں کمزور اور عقل سلیم و فطرت انسانی سے تضاد رکھتی ہیں۔ یہ افراد جان لیں کہ خداوندعالم مظلوموں کے دفاع اور ظالموں کو سزا دینے کے لئے گھات لگائے ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالمِرصادِ (فجر / 14)۔
امید ہے کہ نائیجیریا کی حکومت تاریخ سے درس عبرت لے گی، بے گناہوں کا قتل عام بند کرے گی اور مظلوم شیخ زکزاکی کو رہاکرے گی تاکہ نائجیریا کے اسلامی معاشرے اور امت اسلام کو اطمینان و سکون حاصل ہو۔
اس تحریک کی روح، متوازن اسلام ہے جو افراط و تفریط سے منزہ ہو، اس تحریک کی زبان گفتگو اور اسلامی مذاہب کے درمیان مفاہمت اور تشدد و مسلحانہ اقدامات سے پرہیز ہے، اس تحریک کا رویہ، قومی اتحاد و یکجتہی اور ساتھ ہی اختلافات، قومی، نسلی و مذہبی تنازعات سے پرہیز ہے۔
اس تحریک کا مقصد ، نائجیریا میں اسلام پسندی کا دور لانا ہے کہ جہاں اسلام اور تدین کی جڑیں، پہلی صدی ہجری سے ملتی ہیں۔ اس تحریک کی کوشش اسلامی حکومت، نائجیریا کے قوانین میں دیگر آسمانی ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ مسلمانوں کا احترام، غربت کا خاتمہ، معاشی و سماجی انصاف کا قیام، ملک کے تیل و قدرتی ذخائر سے صحیح استفادہ، قتل و تکفیر کے بجائے مفاہمت و گفتگو، اسلامی فرقوں کے ساتھ رواداری و منطق پر مبنی رویہ اختیار کرنا ہے جس نے اسے نائجیریا میں اسلام پسندی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حيثیت عطا کر دی ہے۔
اس بناء پر شیخ ابراہیم زکزاکی کے بیانات اور ان کے سماجی اقدامات کی روشنی میں اس تحریک کے اہم ترین عناصر کچھ اس طرح ہيں:
۱۔ قومی و عالمی سطح پر ثقافتی ، سیاسی و سماجی بیداری
۲۔ تنقید و نظریے میں قرآنی منطق
۳۔ اسلامی مذاہب میں مفاہمت ، اشتراکات کی بنیاد پر اتحاد اور فرقہ واریت ، تکفیرو تشدد سے پرہیز
۴۔ حکمت عملی اور نظریات میں قرآن کو بنیاد بنانا
۵۔ محبت اہل بیت علیہم السلام
۶۔ ظلم و خلاف جد و جہد و حق کے لئے قیام
۷۔ سماجی رواداری اور قومی اتحاد
۸۔ مسلحانہ کارروائي سے پرہیز
۹۔ دینی علوم میں اضافہ
۱۰۔سماجی تعاون
ان عناصر کی بنیاد پر نائجیریا کی اسلامی تحریک مکمل طور پر اس ملک کی عظیم اسلامی قوم کے بطن سے وجود میں آئی ہے اس لئے اسے دیرگ ملکوں اور غیر ملکوں سے منسوب کرنا در اصل، حقیقت سے توجہ ہٹانے کی غیر منطقی کوشش ہے۔
یہ تحریک، اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے اور کسی بھی انقلاب یا نظریہ سے متاثر نہيں ہے، حالانکہ انسانیت کے عظیم انقلابوں اور تحریکوں خاص طور پر عاشورا سے ملنے والے حوصلے اور درس کی جھلک اس تحریک میں نظر آتی ہے لیکن اسے عالمی سطح پر اخلاقیات و انصاف کی تجدید اور ظلم کے خلاف جد وجہد کے لئے اس تحریک کی پاکیزگی، اس میں موجود اخلاص اور اس کی شفافیت کا راز سمجھا جانا چاہیے۔
عالم اسلام میں، حالات یہ ہیں کہ یا تو عالم اسلام کے خلاف سامراجی طاقتوں کے ظلم و ستم کی طرف سے لا پرواہی اور انکے ساتھ تعاون ہے یا پھر اس کے خلاف تصادم و جنگ ہے۔ دوسری قسم میں، تشدد، تکفیر اور شدت پسندی کو تبدیلی کی بنیاد بنایا جاتا ہے، جیسا کہ داعش، بوکوحرام اور القاعدہ کی روش ہے جو اسلام کے نام پر مکیاویلینزم کے تحت ہر قسم کا جرم کرتے ہيں یا پھر وہ لوگ ہيں جو انصاف و اخلاق کے دائرے میں رہ کر تشدد، افراط و تفریط اور تکفیر سے بچتے ہوئے، غاصبانہ قبضے اور ظلم کے خلاف سیاسی جدو جہد میں یقین رکھتے ہيں اور شیخ زکزاکی کی تحریک اسی کی ایک بین مثال ہے۔
اسی بناء پر شیخ زکزاکی کی قیادت میں نائجیریا کی اسلامی تحریک، اس ملک کے قومی مفادات کے لئے خطرہ تھی نہ ہے۔ کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ اس تحریک نے کبھی بھی اپنے مخالفین کے خلاف کسی طرح کا کوئي مسلحانہ یا انتہا پسندانہ قدم اٹھایا ہو، جس کا یہ مطلب ہے کہ ان کے خلاف تمام تر تشدد، یک طرفہ تھے اور جانی ضیاع بھی اس تحریک کے اراکین کا ہی ہوا ہے۔
نائجیریا کی اسلامی تحریک کے ڈھانچے، اسکی علامت بقیت اللہ امام بارگاہ اور اس تحریک کے پیروکاروں کے اجتماعات کی جگہوں کو تباہ کرنا، تحریک کے نظریاتی رہنما کو حراست میں رکھنا، در حقیقت قومی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور سب کے سب ، ایک پر اسرار لیکن اہل نظر کے لئے واضح حلقے کی جانب سے منصوبہ بند تشدد و تخریبی سازش کے ثبوت ہيں۔
سوال یہ ہے کہ یہ حلقہ کیوں، نائجیریا کی اسلامی تحریک کو ختم کرنا چاہتا ہے؟ اس کا جواب، وہ خوف و وحشت ہے جو مکڑی کے جالے کی طرح پھیلے اس حلقے پر طاری ہے۔ یہ حلقہ در اصل تحجر پسندی ، سامراج اور صیہونیت کا مثلث ہے جو قرآن کریم اور اہلبیت (ثقلین) سے حاصل ہونے والے خالص اسلام کی تحریکوں کے سامنے صف آرا ہو گیا ہے اور اس کے ہاتھ، ان تحریکوں کے ذمہ داروں کے خون سے آلوہ ہيں۔
سانحۂ زاریا جیسے واقعات و اقدامات، ماضی میں اسی حلقے کی طرف سے لبنان کے قانان، فلسطین کے غزہ اور یمن و شام میں انجام دئے جا چکے ہیں لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
نائجیریا کی اسلامی تحریک سے خوف اور اس کی سرکوبی کی سب سے اہم وجوہات یہ ہو سکتی ہيں:
۱۔ نائجیریا کی اسلامی تحریک سے متاثر ہوکر پورے افریقا میں اسلامی بیداری کی حقیقی عوامی تحریک سے جنم لینے والے ایک خود مختار اسلامی سماج کی تشکیل کے خدشات کے پیش نظر، مسلمانوں کے فکری اور قدرتی سرمائے کو ختم اور لوٹنے کی خواہش رکھنے والے اس مثلث کی نیند اڑ گئي ہے اور وہ بے حد تشویش ميں ہے۔
۲۔ اسلامی تحریک کی جانب سے اسلامی مکاتب میں مفاہمت اور تشدد و تکفیر سے دوری کی دعوت کی وجہ سے صیہونیوں اور رجعت پسندوں کی جانب سے اسلامی امت کے لئے رچی جانے والی سازشیں ناکام ہو گئي ہيں۔
۳۔ افریقا کے نوجوانوں میں نائجیریا کی اس موثر و عوامی تحریک کے اعلی مقاصد سے بڑھتی دلچسپی سے تحجر و رجعت پسندی، سامراج اور صیہونیت کے اس مثلث پر لزرہ طاری ہے ۔
۴۔ افریقا اور عالم اسلام میں ظلم کے خلاف عاشورا اور مہدویت کے اعلی اور امید بخش پیغامات کی ترویج سے یہ مثلث بے حد تشویش میں ہے ۔
۵۔ تحجر ، سامراج اور صیہونیت کے خلاف کھل کر جد و جہد کرنے والی عالم اسلام کی واحد شخصیت کی شکل میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بے نظیر و حیات بخش نظریات کی ترویج سے یہ مثلث بے حد خوفزدہ ہے ۔
آخر میں ایسا لگتا ہے کہ سب سے بہتر راہ، اس تحریک اور نائجیریا کی حکومت کے درمیان مذاکرات ہيں۔ حکومت کو یہ اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا کہ یہ تحریک نائجیریا کے قومی مفادات کے لئے نہ خطرہ تھی اور نہ ہے، اور نہ صرف یہ کہ اس تحریک نے اس ملک کے قومی اتحاد کو کوئي نقصان نہيں پہنچایا ہے بلکہ اس نے ملک کے تمام طبقوں میں اتحاد و یکجہتی کے جذبہ کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا ہے، حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہونا چاہئے۔
اسی طرح نائجیریا کی حکومت اور بے حد وسیع و عوامی اسلامی تحریک کے درمیان مذاکرات کے دوران ایک دوسرے کی شناخت سے مفاہمت اور مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو گی۔
نائجیریا کی حکومت کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ تحریک ، اس سے تصادم نہيں چاہتی۔ تحریک کے مطالبات پوری طرح سے انسانی و عالمی ہیں اور اس کی جد وجہد عالمی سامراج کے خلاف مکمل طور پر سیاسی، نظریاتی اور سماجی ہے۔ اسی طرح ، نائجیریا کی حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے ملک میں ، جہاں افریقا کی سب سے بڑی دہشت گردانہ تنظيم یعنی بوکو حرام اور اس کے اتحادی داعش کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور وہ نائجیریا کے بے گناہ عوام کا خون تکفیر و دہشت گردی کے ذریعے بہاتے ہيں، ایک مکمل سیاسی و پر امن تحریک کے خلاف اقدامات ، دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے خلاف اور ایک طرح سے خودکشی ہے۔
نائجیریا کی سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے بجائے، پر امن اور قومی مفادات کا تحفظ کرنے والوں کی خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔
خداوند عالم تاریخ کے تمام مظلوموں اور ستم دیدہ لوگوں کی مدد کرے اور وہ یقینا ان سب کی مدد کرے گا کیونکہ یہ خدا کی نا قابل تبدیلی روایت ہے اور نائجیریا کی پر امن اسلام تحریک اور اس کے مظلوم و ستم دیدہ رہنما بھی ، اس الہی روایت سے فیض یاب ہوں گے۔ انشاء اللہ
والسلام علیکم و رحمة الله
احمد مروی