Sep ۱۶, ۲۰۱۹ ۰۷:۲۰ Asia/Tehran
  • سعودی عرب پر آگ برسانے والے ڈرون طیاروں کی دلچسپ داستان (پہلا حصہ)

دنیائے عرب کے مشہور تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر یمنییوں کے ڈرون حملوں کا دلچسپ تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سعودی عرب کے شہری سیکورٹی کے شعبے نے محنت کرکے اس آگ پر کنٹرول حاصل کر لیا جو مشرقی سعودی عرب میں بحرین کی سرحد کے نزدیک بقیق اور حریض نامی آئل ریفائنریوں میں ڈرون حملوں کی وجہ سے لگی تھی ۔

آگ پر قابو تو ہونا ہی تھا لیکن بہت اہم سوالات جو پیدا ہوئے ہیں اور بہت دنوں تک سعودی عرب کے سیکورٹی کے شعبے کو جو تشویش میں مبتلا کرنے والے ہیں ان کا تعلق اس بات سے ہے کہ یہ ڈرون کس طرح کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف تک پہنچے اور پوری دقت کے ساتھ انہوں نے اہداف کو نشانہ بنایا، وہ بھی ایسے علاقے میں جس کے بارے میں یہ سب جانتے ہیں کہ وہاں سیکورٹی کے پختہ انتظامات کئے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ وہی تنصیبات ہیں جو سعودی عرب کی آمدنی کا اصل ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ کیا سعودی عرب کے اندر سے اس حملے میں تعاون کیا گیا تھا؟

ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے دونوں آئل فیلڈز اور ان سے متعلق بڑی تیل ریفائنریوں کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔

بقیق آئل فیلڈ سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دنیا کی بہت قدیمی آئل فیلڈ ہے اس کا پتہ 1940 میں لگایا گیا تھا۔ اس کی پیداوار کی صلاحیت روزانہ ستر لاکھ بیرل ہے۔  اس سے ملی ہوئی حریض فیلڈ اور دو ریفائنریاں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی آرامکو کمپنی کی تقریبا ستر فیصد پیداوار ان تیل ریفائنریوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔

قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ ایک سال سے کم عرصے میں آرامکو کمپنی سے متعلق تنصیبات پر یہ تیسرا حملہ ہے۔ پہلا حملہ مئی کے مہینے میں ہوا تھا جب سات ڈرون طیاروں نے مشرق سے مغرب جانے والی تیل پائپ لائن کے پمپنگ سسٹم کو نشانہ بنایا تھا۔

دوسرا حملہ 17 اگست کو شیبا آئل فیلڈ پر ہوا تھا جو روزانہ تقریبا پانچ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتی ہے۔ تیسرا حملہ سنیچر کی صبح ہوا جو اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔

جاری...

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

* مقالہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں، سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے *

ٹیگس