Mar ۲۵, ۲۰۲۰ ۲۱:۴۳ Asia/Tehran
  • کورونا زندگی ہے! (مقالہ)

ہیئت پرستی یا Formalism  کے حامی ادیبوں کا وتیرہ یہ رہا ہے کہ اشیا، انسان اور دنیا کی حقیقت کو چھپانے اور ہیئت و  زبان پرمضمون کی قلعی  چڑھانے والی یکسانیت اور عادت سے باہر نکالنے کے لیے، اس کے عدم اور فقدان کا سہارا لیا جائے اور ہر اس چیز کو چیلنج کیا جائے جو عادت اور معمول دکھائی دیتی ہو۔ ان کے مطابق یہ اخلاقی دستور اور مشورہ نہیں بلکہ زمانے کا تقاضہ اور ضرورت ہے۔

کورونا زندگی ہے!

تلخیص و تالیف: عظیم سبزواری

.....

ایک ادبی اصطلاح ہے کہ بعض اوقات مضمون، زبان اور ہیئت پر غالب آ جاتا ہے اور اتنا غالب آ جاتا ہے کہ زبان اور ہیئت کی کوئی وقعت ہی باقی نہیں رہتی اور اس پر کوئی توجہ ہی  نہیں دیتا۔

 سورج ہی کو لے لیں جو ہر روز ہماری دنیا کو روشن کرتا ہے اور ہمیں اپنے ارد گرد کی اشیا کو دیکھنے کے قابل بناتا ہے لیکن ہم کبھی سوچتے بھی نہیں کہ یہ روشنی کہاں سے پھوٹی ہے، سورج کہاں اور کیا کر رہا ہے۔ کیونکہ اس کی روشنی ہی اس  کا حجاب بن جاتی ہے۔

ہوا کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ جس ماحول میں ہم زندگی گزار ہے ہیں جب تک صورتحال معمول پر رہے اس کی اہمیت اور قدر محسوس نہیں ہوتی، اور جیسے ہی معمول سے ہٹ کر ہوا کے رنگ و بو میں تبدیلی ہمیں محسوس ہوتی ہے، ماحول اور ہوا کی پاکیزگی کی اہمیت ہمارے ذہنوں میں جولانی پیدا کرنے لگتی ہے اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہوا کیا ہے اور آلودگی کیا ہے؟ اور یوں ان کے بارے میں ہماری معلومات اور شناسائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

عام طور پر یہی دیکھا گيا ہے کہ کسی چیز یا فرد کی اہمیت اسی وقت واضح ہوتی جب وہ چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے یا یوں کہیے کہ کسی چیز کی اہمیت اور حققیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے نہ ہونے پر غور کرنا چاہیے، یعنی اگر فلاں چیز نہ ہوتی  تو کیا ہوتا۔

ہیئت پرستی یا Formalism  کے حامی ادیبوں کا وتیرہ بھی یہی رہا ہے کہ اشیا، انسان اور دنیا کی حقیقت کو چھپانے اور ہیئت و  زبان پرمضمون کی قلعی  چڑھانے والی یکسانیت اور عادت سے باہر نکالنے کے لیے، اس کے عدم اور فقدان کا سہارا لیا جائے اور ہر اس چیز کو چیلنج کیا جائے جو عادت اور معمول دکھائی دیتی ہو۔ ان کے مطابق یہ اخلاقی دستور اور مشورہ نہیں بلکہ زمانے کا تقاضہ اور ضرورت ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جارج اورول (George Orwell) کی کہانی انیمل فارم(Animal Farm) جوزف اسٹالن کی زندگی سے ماخوذ تھی۔ بلکہ داستان نویسی کا عمل ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں ادبی صناعت و تمثیل، طنز و ہجو، کردار اور تھیئٹر کی مضحکہ خیز شکل خود کو نمایاں کرتی اور اسٹالن اس ادبی اسلوب کے ابھرنے کا بہانہ ثابت ہوا۔ بنا برایں ادبی تاریخ کے عمل میں  انیمل فارم  جیسی کہانی لکھی جانا تھا اور ہوسکتا ہے کہ یہ کہانی جارج اورویل نہیں  لکھتے  تو کوئی اور لکھتا۔ 

ہیئت پرستی یا Formalism اپنے تقاضے زمانے سے حاصل کرتا ہے اور ایک طرح سے مروجہ ادب کے باغی خود کو تاریخ و ادبیات اور ثقافت پر زبردستی مسلط کر دیتے ہیں۔ اس نظریے سے  اختلاف اپنی جگہ لیکن ہم یہ  کہہ سکتے ہیں کہ  ہیئت پرستی یا  Formalism  دراصل ادبی روح کے خلاف ادبی پیکرمیں شورش کا نام ہے اور ظاہر کی باطن کے خلاف بغاوت ہے۔

کورونا بھی زندگی کے ساتھ یہی کر رہا ہے۔ کورونا بھی معمول بن جانے والی زندگی کے خلاف بغاوت ہے۔ مساجد اور عبادتگاہیں فتاوی اور سرکاری احکامات کے تحت بند کردی گئی ہیں، فن وہنر کے مراکز میں تالے پڑے ہیں، سیر وسیاحت ناممکن ہوگئی ہے۔علاقائی و عالمی حصصِ بازار بیٹھ گئے ہیں، خاندانی ملاقاتیں اور دوستی یاری کا سلسلہ رک گیا ہے، شہروں کا حلیہ بگڑ گیا ہے، ماسک زدہ چہرے اجنبی اور غیر دکھائی دیتے ہیں اور چہرے کو چھپا دینے والے ماسک کے اندر  اپنے اور  غیر  کے درمیان شناخت دشوار ہوگئی ہے۔

لیکن یہ زندگی کے خلاف کورونا کی بغاوت ہمارے لیے جسمانی زندگی کی اہمیت اور مفہوم کو اجاگر کر رہی ہے۔ اگرچہ کورونا اپنی ظاہری صورت میں ہلاکت خیز اور مرگ آفریں ہے اور ملکوں اور شہروں میں موت کا سناٹا بکھیر رہا ہے اور اس نے عالمی نظام کو معطل اور زندگی کا رسمی پہیہ جام کردیا ہے، لیکن اس نے سوچنے اور سمجھنے کا زبردست موقع فراہم کردیا ہے تاکہ ہم یاد کریں کہ وہ چیز جو زمانے کے قیل و قال اور سیاست و اقتصاد کے شور شرابے میں گم ہوگئی تھی کیا ہے؟ جی ہاں وہ زندگی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ دنیاوی زندگی کی غرض و غایت آسائش تن اور رفاہ جسمی نہیں، لیکن اگر اسے وقت کے دھارے اور زمانے کی چکا چوند میں فراموش کردیا جائے اور اس سے بلا کی لاتعلقی برتی جائے تو یہ باغیانہ شکل میں ظاہر ہوگی اور فقہ و ادب، سیاست و اقتصاد، حکومت اور اقتدار کے ہر گلی کوچے سے ایک ہی نعرہ سنائی دے گا " النظافہ من الایمان" پاکیزگي ایمان کا جز ہے، جسے ہم فراموش کر چکے ہیں اور ہماری زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے، اب اس بے اعتنائی کا مداوا موت سے ہورہا ہے اور ہمیں زندگی کا ڈھنگ اور فلسفہ پھر  سے یاد دلایا جارہا ہے۔

جی ہاں کورونا زندگی کی سمت واپسی کی دعوت ہے، بلکہ دعوت نہیں خود زندگی ہے۔ ہمیں کورونا کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ہمیں زندگی اور اس کے لوازمات کی یاد دھانی کرا رہا ہے، گھر بار، خوشحالی، امید و نشاط، صحت و تندرستی  اور دوستی و محبت  جیسے لوازمات زندگی جو دنیا کے شور وغل  اور ہنگامے میں گم ہوکے رہ گئے ہیں۔

ٹیگس