Jun ۲۷, ۲۰۱۷ ۱۴:۲۵ Asia/Tehran
  •  امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج

امریکی عوام اور انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکنوں نے ٹرمپ کے امیگریشن آرڈینینس کے بارے میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

امریکہ میں مہاجروں کے حقوق کی حمایت میں قائم ادارے کی نائب سربراہ لارا فینک بینر نے کہا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ، صدر ٹرمپ کے حکمنامے کو بحال کر کے امتیازی سلوک کو رواج دے رہی ہے۔

امریکہ میں مختلف اداروں اور تنظیموں نے بھی ٹرمپ کے آرڈینینس کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابل اعتراض قرار دیا ہے۔

نیشنل ایرانین امریکن کونسل نے امریکی صدر ٹرمپ کے حکمنامے کو جزوی طور پر بحال کئے جانے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتائچ پر خبردار کرتے ہوئے ٹرمپ کی اسلامو فوبیا اور امتیازی سلوک پر استوار پالیسیوں کے مقابلے میں امریکی کانگریس اور قانون دانوں کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے۔

امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر میزی ہیرونو نے بھی ٹرمپ کے حکمنامے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے اقدام سے تعبیر کیا ہے۔

اسلام امریکہ تعلقات کونسل نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ امریکہ میں اسلامو فوبیا کی ترغیب کا باعث بنے گا جس کے نتیجے میں امریکہ میں مسلمان برادری کو غیرقانونی اور غیرتعمیری اقدامات کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اس بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کی جانب سے امریکہ کا سفر کئے جانے میں قانونی بحران پیدا ہونے پر منتج ہو گا۔

امریکی سپریم کورٹ نے صدرٹرمپ کے مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے حکم نامے کے خلاف مقامی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی کا فیصلہ جزوی طور پر بحال کر دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ رواں سال اکتوبر میں اس بات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کو جاری رہنا چاہیے یا نہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری اور مارچ دو ہزار سترہ میں چھے اسلامی ممالک ایران، صومالیہ، سوڈان، یمن، شام اور لیبیا کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی کے صدارتی آرڈر جاری کیے تھے جب کہ پناہ گزینوں پر بھی ایک سو بیس روزہ پابندی عائد کرنے کی بات کہی تھی جسے مقامی عدالت نے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا اور پھر ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔