Sep ۲۲, ۲۰۱۵ ۱۶:۲۳ Asia/Tehran
  • افغانستان کے صدر اشرف غنی احمد زئی
    افغانستان کے صدر اشرف غنی احمد زئی

اففانستان کے سابق جہادی رہنماؤں میں سیاسی اورسلامتی کے تعلق سے پائی جانے والی تشویش اورناراضگی میں کسی قسم کی کوئي کمی دیکھنے میں نہيں آئی ہے بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق معروف سابق جہادی لیڈرعبدالرسول سیاف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں صدر اشرف غنی اور دیگر سرکاری حکام کو انتباہ دیا ہے کہ وہ حکومت میں شامل بیرونی ایجنٹوں اورمشکوک عناصر سے ہوشیاررہیں۔

عبدالرسول سیاف نے اس کے ساتھ ہی کہا کہ یہ عناصرقومی وحدت پر مبنی حکومت اورملک کی سلامتی کے خلاف اقدام کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔
عبدالرسول سیاف  نے جو سابق صدر برہان الدین ربانی کی برسی کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے کابل حکومت کو متنبہ کیا کہ حکومت میں شامل کچـھ عناصردشمن کے لئے کام کررہے ہیں اگران عناصرکو کنٹرول نہ کیا گیا توحکومت کے خلاف کسی وقت بھی بغاوت کردیں گے۔

سابق جہادی رہنما عبدالرسول سیاف نے  حکومت کو مشورہ دیا کہ ان افراد کو چھوٹ دینے کی پالیسی ترک کرکے ان کی تطہیرکی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرحکومت ان لوگوں کو نہیں پہچانتی تو وہ ان افراد کو بے نقاب کرنے کے لئے تیار ہیں۔

عبدالرسول سیاف نے دعوی کیا کہ یہ عناصرماہانہ دو ہزارڈالر کے عوض پاکستان کے خفیہ ادارے آئي ایس آئی کے لئے جاسوسی کرتے ہيں۔
اس سے قبل افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم نے ملک کے شمالی علاقوں میں طالبان عناصر کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کی براہ راست نگرانی کے موقع پرکہا تھا کہ حکومت میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں کہ جنہوں نے ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردوں کے اثرو نفوذ کی راہ ہموار کی ہے۔

عبدالرشید دوستم کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد ایسے عناصر کو عوام کے سامنے  بے نقاب کردیں گے۔

سابق صدرحامد کرزئی اورموجودہ صدراشرف غنی نے حکومت میں سابق جہادی رہنماؤں کی جگہ ٹکنوکریٹوں اوران لوگوں کو اقتدارمیں شامل کیا ہے کہ جوعام طورپر بیرون ملک زندگی گزارتے رہے ہيں۔

 یہی وہ امر ہے کہ جس نے سابق جہادی رہنماؤں کے غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ ان رہنماؤں نے سابق جہادی لیڈروں کو حذف کرنے اور ان لوگوں کو اقتدار میں شامل کرنے کے نتائج کی بابت حکومت کو بارہا انتباہ دیا ہے کہ جو دوران جہاد افغانستان میں نہيں تھے۔

 ان رہنماؤں نے حکومت پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ جن لوگوں نے سویت یونین کی ریڈ آرمی کے قبضے کے دوران  ملک و ملت کے دفاع  کی خاطر جہاد میں حصہ لیا اور اس کے بعد طالبان کے خلاف جنگ کی ہے ان پر زیادہ توجہ دی جائے۔سابق جہادی رہنما اس سے قبل افغانستان کے سیاسی اور فوجی میدان سے جہادی عناصر کو نکالے جانے کو امریکا اور یورپی ملکوں کا بنیادی ہدف قرار دے چکے ہيں۔ ان سابق جہادی رہنماؤں کا کہنا ہے  کو ملک کے سیاسی اور فوجی میدانوں میں سابق جہادی رہنماؤں اور کمانڈروں کی موجودگي کی صورت میں، مغرب افغانستان کو اپنی کالونی بنا سکتا ہے نہ ہی دہشت گرد عناصر افغانستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہيں۔

بنابریں سابق جہادی رہنماؤں کے نقطہ نظر سےافغانستان کو موجودہ بحرانی صورتحال سے نکالنے اور پائیدار سلامتی کی برقراری کے  لئے ایک بار پھرایسے افراد کی ضرورت ہے جن کی دل اپنے وطن کے استقلال اور آباد کاری  کے لئے دھڑکتے ہیں۔
اسی سوچ اور نظریئے کے تحت سابق جہادی رہنماؤں نے صدر اشرف غنی کو ایسے افراد کے ساتھ تعاون کی بابت انتباہ دیا ہے جو ملک و ملت کے خلاف غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔  

ٹیگس