Sep ۲۲, ۲۰۱۵ ۱۶:۱۲ Asia/Tehran
  • پناہ گزینوں کے مقابلے میں یورپ کی ناتوانی کا سلسلہ جاری
    پناہ گزینوں کے مقابلے میں یورپ کی ناتوانی کا سلسلہ جاری

پناہ گزینوں کے مقابلے میں یورپ کی ناتوانی کا سلسلہ جاری ہے۔

جرمنی کے ترقیای امورکے وزیرگرد مولر نے دی ولٹ نامی اخبارسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کو ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ پناہ گزینوں کے مقابلے میں اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔

مولر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جرمنی تن تنہا اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا کہا کہ شام اوراسکے اطراف کے علاقوں سے  تقریبا بارہ میلین پناہ گزینوں میں پانچ فی صد نے یوپراورجرمنی کا رخ کیا ہے اور ۹ فیصد ابھی بھی خطے میں موجود ہیں۔
جرمنی کے ترقیاتی امورکے وزیر نے یورپین ڈولیپمنٹ بینک کی جانب سے پناہ گزینوں کے لئے فوری طور پر دس بیلین یورو کے ہنگامی پیکج کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پانچ بیلین یورو کو فوری طور پر استعمال کیا جائے اور مزید پانچ بیلین یورو کو یورپی ممالک کی سرحدوں خاص طور پر اٹلی اور یونان کی سرحدوں پر انسانی پناہ گزینوں کی پذیرش کے مراکز کی امداد کے لئے استعمال کیا جائے۔

جرمنی کے صدر اعظم نے بھی گذشتہ دن یورپی ممالک کے باہمی تعاون کو پناہ گزینوں کے بحران کے حل کی شرط قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے امورجانچ پڑتال ایک انسانی مسئلہ ہے لیکن پناہ گزینوں کا بحران صرف جرمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یورپ کے تمام ممالک اس مسئلہ کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔

مرکل نے ایک ایسے عالم میں یہ اظہارخیال کیا ہے کہ گذشتہ روزجرمنی کے قوم پرستوں نے بعض پناہ گزینوں کے لئے بنائے جانے والے کیمپ پرحملہ کردیا اورشامی پناہ گزینوں کی جرمنی کے ایک شہرمیں پناہ لینے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ جرمنی میں ایک قوم پرست گروہ نے ایک اسپورٹس کمپلیکس پرحملہ کرکے وہاں آگ لگادی۔

اس عمارت میں۴۰۰ شامی پناہ گزینوں کے لئے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس عمارت کو آگ لگانے کے واقعے نے یہ ثابت کردیا کہ جرمنی کے قوم پرست اپنے ملک میں شامی پناہ گزینوں کو جگہ نہیں دینا چاہتے۔
جرمن حکام نے اعلان کیا ہے کہ ورژیم شہرکہ جس کی ۲۲ ہزارافراد پرمشتمل آبادی ہے۔ اس سے پہلے ۶۰۰ پناہ گزینوں کو قبول کرچکا ہے، لیکن اس عمارت میں تخریب کاری کے واقعے کی وجہ سے اب عملی طور پر مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقعے کے بعد اب تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

فرانس کے صدر نے بھی گذشتہ دن یورپی ممالک کی جانب سے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی ضرورت پرتاکید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی یورپی ملک پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ انہوں نے یورپ کے مشترکہ اقداروں اوراصولوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا پناہ گزینوں کو یورپ کے تمام ممالک میں یکساں طور پرتقسیم ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہارایک لاکھ بیس ہزارمہاجرین کی تقسیم کے بارے میں فیصلے کے لئے تین دن پہلے منعقد ہونے والی یورپی ممالک کی سربراہی کانفرنس میں کیا گیا۔ مہاجرین کی تقسیم کا مسئلہ یورپ کے مشرقی اور مغربی ممالک کے درمیان اختلافات کا شکار ہو گیا ہے۔

چند دنوں پہلے مشرقی یورپ کی سرحدوں کے باہر موجود مہاجرین کو خاردارتاروں اورجنگی ٹینکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہنگری اورصربیا نے گذشتہ دن ان دونوں ممالک کے درمیان حائل سرحدی علاقے کو ایک بار پھر کھول دیا جسے چند دنوں پہلے مہاجریں کی جانب سے بڑے پیمانے پر عبور کرنے کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ بوڈا پسٹ نے اس سرحد کو گذشتہ ہفتے مہاجرین کے لئے بند کردیا تھا۔

آج بھی پراگ میں پناہ گزینوں کے بحران کے سلسلے میں ویسگراڈ گروہ میں شامل یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس متوقع ہے۔ پولینڈ کے وزیر خارجہ نے اس اجلاس کو یورپ کے مشکلات کے حل خاص طور پر پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے لئے نہایت اہم قرار دیا ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک پناہ گزینوں کے سلسلے میں یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے جانے والے کوٹہ سسٹم کو قبول نہیں کرتے۔

ٹیگس