بحرین میں آل خلیفہ کی شاہی حکومت کے خلاف احتجاج کی لہر میں شدت
بحرین سے ملنے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کی شاہی اور ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں بحرینی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
کرزکان، دراز، نویدرات اور سترہ سمیت بحرین کے مختلف شہروں اور علاقوں کے عوام نے آل خلفیہ حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جن میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کے حامیوں اور بحرینی قیدیوں اور مرنے والوں کے اہل خآنہ نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین نے جمعیت وفاق ملی کے سربراہ شیخ علی سلمان سمیت دیگر قیدیوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور وہ بحرین کے بادشاہ شیخ حمد بن عیسی آل خلیفہ کے خلاف نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ نویدرات کے علاقے کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے کہ جن پر کچھ عرصہ قبل بحرینی فوجیوں نے وسیع پیمانے پر حملے کیے تھے۔ بحرین میں دو ہزار گیارہ میں عوامی تحریک کو کچلنے کے وقت سے لے کر اب تک پرامن عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے کہ جن میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت سعودی فوجیوں اور متحدہ عرب امارات کے سیکورٹی اہلکاروں کہ جو سپر جزیرہ فوج کے نام سے بحرین میں تعینات ہیں، نیز دیگر عرب ممالک کے بحرین میں تعینات فوجیوں کی مدد سے بحرین میں عوامی احتجاج کو کچل رہی ہے۔ ایسے حالات میں بحرین کے ایک سیاسی رہنما حسین الجابری نے بحرین میں تشویشناک سیاسی، قانونی اور اقتصادی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کا طاقت اور تشدد سے کام لینا ملک میں سیاسی اصلاحات اور جمہوری تبدیلی لانے میں اس کی نااہلی کی تائید کرتا ہے۔
حسین الجابری نے کہا کہ آل خلیفہ احتجاجی مظاہرین کو منصوبہ بند طریقے سے کچلنے کی پالیسی اپنا کر مختلف راہ حل کو ختم کرنا اور بین الاقوامی حمایت کے سائے میں عوامی احتجاج کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکورٹی آپشنوں کا استعمال جاری رکھنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایسی حالت میں ہے کہ بحرین کے بادشاہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی اقتدار سے علیحدگی اس ملک کے بحران کی سنجیدہ راہ حل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عوام کا یہ بڑھتا ہوا سیلاب کہ جو اپنے قانونی حقوق کے حصول کا مطالبہ کر رہے ہیں، اب رکنے والا نہیں ہے اور آل خلیفہ کی حکومت سے ملت کی بیزاری کے انکار پر حکومت کا اصرار اور عوامی احتجاج کو قبائلی رنگ دینے کی کوشش اب بےفائدہ اور لاحاصل ہے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ لبنان کی العہد ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق بحرین کی انسانی حقوق کانفرنس نے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا کے نام ایک خط ارسال کیا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بحرینی حکام کی جانب سے اس ملک کے اساتذہ کے حقوق کی پامالی کی بنا پر بحرین کے بادشاہ شیخ حمد بن عیسی آل خلیفہ کو، تعلیمی نظام میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا خصوصی انعام دینے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ یونیسکو ایسی حالت میں انٹرنیشنل ٹیچرز ڈے منا رہی ہے کہ جب بحرینی اساتذہ کی تنظیم کے سربراہ مہدی ابودیب بحرین کی جیل میں قید ہیں اور ان کو ایذائیں دینے والے ہر قسم کی سزا سے محفوظ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بحرینی حکام اساتذہ کے خلاف اپنا سیاسی ظلم و ستم اور امتیازی رویہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ آل خلفیہ کی ڈکٹیٹر حکومت نے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی اور جائز اور قانونی مطالبات کرنے والے عوام کو کچل کر بحرین کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آل خلیفہ حکومت کہ جس نے اپنے اقدامات سے بحرین کو انسانی حقوق کے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے، مغرب، بعض عرب حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی وسیع پیمانے پر حمایت کے سائے تلے اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان ملکوں اور اداروں نے آل خلیفہ حکومت کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اس انسانیت مخالف حکومت کو کہ جو بحرینی عوام کو سختی کے ساتھ کچل رہی ہے، انعام بھی دیا ہے۔
اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل ریاض میں یورپی یونین کے نمائندہ دفتر نے خلیج فارس کے علاقے میں انسانی حقوق کی تقویت کے لیے دو ہزار چودہ میں "شاو" کے نام سے ایک انعام بحرین کی وزارت داخلہ سے واسبتہ انسانی حقوق کی قومی فاؤنڈیشن کو دیا ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے کچھ عرصہ قبل کیے گئے اس مضحکہ خیز اقدام کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں اس نے انسانی حقوق کی عرب عدالت کے ہیڈکوارٹر کے طور پر بحرین کا نام پیش کیا ہے۔