اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ناوابستہ ممالک کی تنظیم کی توقعات
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل نمائندے اور سفیر غلام علی خوشرو نے ناوابستہ ممالک کی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے منگل کے دن سلامتی کونسل کے طریقہ کار سے متعلق آزاد بحث کے مقصد سے بلائے جانے والے آزاد اجلاس میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بہت سے مقامات پر اپنے اصولوں سے انحراف کیا ہے۔
غلام علی خوشرو نے مزید کہا کہ ناوابستہ ممالک کی تنظیم سلامتی کونسل کی کارکردگی میں شفافیت اور اضافے کی خواہاں ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ چند عشروں کی کارکردگی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کونسل نے کبھی بھی بحرانوں کے خاتمے کے لئے ٹھوس فیصلے نہیں کئے ہیں۔
حالانکہ یہ کونسل غیرجانبدارانہ اور مضبوط رد عمل ظاہر کر کے بہت سی جنگوں کے پھیلاؤ کو روک سکتی تھی، بہت سے بحرانوں کو ان کے آغاز میں ہی ختم کر سکتی تھی اور ہزاروں انسانوں کی جانیں بچا سکتی تھی۔
اس سلسلے میں شام، فلسطین، یمن، افغانستان اور عراق کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بحران اچانک وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ سالہا سال کے دوران وجود میں آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ماضی پر بھی ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا اور اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اصولا اقوام متحدہ کیوں اور کس مقصد کے تحت وجود میں آئی اور سلامتی کونسل کے کردار کا جائزہ کس طرح لیا جانا چاہئے۔
سنہ انیس سو پینتالیس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا۔ اس ادارے کا ایک مقصد عالمی امن کا قیام اور جنگوں کی روک تھام تھا۔ یہ ذمےداری اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر چوبیس کے مطابق سلامتی کونسل کے سپرد کی گئی ہے۔
درحقیقت اقوام متحدہ کا منشور تدوین کرنے والوں نے بحرانوں اور جنگوں کی روک تھام میں انجمن اقوام کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے امن قائم کرنے کی اہم ذمےداری سلامتی کونسل کے سپرد کر دی۔
جس میں دوسری عالمی جنگ کے فاتحین (امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین اور فرانس ) اور چین کو خاص مقام حاصل تھا۔
بہرحال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو امن کے محافظ کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی ذمےداری اقوام متحدہ کے منشور کی چوبیس سے چھبیس تک کی شقوں میں معین کی گئی ہیں۔
ایک سرسری نگاہ میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمےدار ہے اور اس مقصد کے حصول اور بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈالنے والے ممکنہ اختلافات کے حل میں مدد دینے کے لئے ایسے فیصلے کر سکتی ہے جن پر لازمی طور پر عملدرآمد کرایا جا سکتا ہو۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بین الاقوامی امن و سلامتی اس حد تک اہمیت رکھتی ہے کہ تمام ممالک اس سلسلے میں شرکت کرنے کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک نے سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد انیس سے لے کر پچیس تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، بعض دوسرے ممالک مختلف براعظموں کے نمائندوں کو مستقل رکنیت دیئےجانے کے خواہاں ہیں جبکہ اکثر ممالک کا مطالبہ یہ ہے کہ ویٹو کے حق کے بغیر سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد بڑھائی جائے۔
بہرحال سنہ دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی کے جائزے اور اقوام متحدہ کے اراکین کے مواقف پر توجہ دیئے جانے کا بھی ایک موقع ہوگا۔
اس سلسلے میں ناوابستہ ممالک کی تنظیم کے مواقف خصوصا اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کے انتخاب میں جنرل اسمبلی کے کلیدی کردار کی تقویت کی ضرورت پر تاکید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کردار کو تقویت دینے کے سلسلے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔