Oct ۲۷, ۲۰۱۵ ۱۷:۴۹ Asia/Tehran
  • عرب لیگ کے حکام کے ساتھ لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے صلاح و مشورے
    عرب لیگ کے حکام کے ساتھ لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے صلاح و مشورے

لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برنارڈینو لئون نے لیبیا میں امن معاہدے کے تحفظ اور عرب لیگ کے حکام سے بات چیت کے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ کا دورہ کیا ہے۔

برنارڈینو لئون اپنے چند روزہ دورے کے سلسلے میں پیر کے روز قاہرہ پہنچے تاکہ بحران لیبیا کے تازہ ترین حالات کا جائزہ لینے اور لیبیائی فریقوں کے درمیان ہونے والے صخیرات امن معاہدے کو بچانے کے لیے عرب لیگ کے حکام، لیبیا کی بعض بااثر شخصیات اور مصر کے اعلی رتبہ حکام سے ملاقات اور گفتگو کریں۔

برنارڈینو لئون ان ملاقاتوں میں لیبیا کے بحران کے خاتمے کے لیے اس ملک میں ایک قومی حکومت کی تشکیل کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی بار لیبیا میں امن معاہدے کے حصول کو اس ملک کو دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ایک اہم عامل قرار دیا اور خبردار کیا کہ جو لوگ اس معاہدے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں ان کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کی جائے گی۔

لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برنارڈینو لئون نے کچھ عرصہ قبل اس ملک کے بحران کے سیاسی حل کے لیے ایک منصوبے کا مسودہ پیش کیا تھا کہ جس کے مطابق فائز سراج کو قومی حکومت کا وزیراعظم بنایا جانا تھا لیکن عالمی برادری کی حمایت یافتہ لیبیا کی پارلیمنٹ سمیت دیگر مذاکراتی فریقوں نے اس مسودے کو مسترد کر دیا۔ یہ مسودہ ایک ایسے وقت میں مسترد کیا گیا کہ جب عالمی برادری خاص طور پر لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کو قومی حکومت کی تشکیل کے لیے حتمی تائید اور معاہدے پر دستخط کی توقع تھی۔ اس مسودے کو اس لیے مسترد کیا گیا کہ بعض مذاکراتی فریقوں کا یہ خیال تھا کہ حتمی معاہدے میں ان کے نقطہ نظر کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اور اس معاہدے کی شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

دوسری جانب بعض ارکان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اور برنارڈینو لئون جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ایک طرح سے لیبیا کے داخلی امور میں مداخلت ہے اس لیے اسے قبول کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ باخبر افراد کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں حتمی معاہدے پر دستخط نہ ہوئے تو یہ انجام پانے والے تمام مذاکرات اور کوششوں پر عملی طور پر خط بطلان اور مذاکرات سے لیبیا کے نکلنے کے مترادف ہو گا کہ اس صورت میں لیبیا میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں یہ ملک تقسیم کے خطرے سے بھی دوچار ہو سکتا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران لیبیا کے عوام اور اس ملک کے اندر معاہدے کے مسئلے پر داخلی اختلافات میں بھی شدت آ گئی ہے، بعض لوگ ملک میں امن کے قیام کے لیے معاہدے پر دستخط کے حق میں ہیں اور بہت سے لوگ اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے لیبیا کے شہر بنغازی میں اقوام متحدہ کے منصوبے کی مخالفت میں مظاہرہ کرنے والے افراد پر مارٹر گولے سے حملہ کیا گیا جس میں بارہ سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سیاسی مبصرین مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ایک معاہدے کے حصول کو لیبیا کے بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات اب تک کامیاب نہیں رہے ہیں اور بعض دوسرے ممالک کی لیبیا کے داخلی سیاسی امور میں مداخلت نے بھی معاہدے کے حصول کو مزید سخت اور دشوار بنا دیا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مذاکرات کو جاری رکھنے اور لیبیا کے حکام کی جانب سے امن معاہدے پر دستخط کے لیے آخری کوشش اور صلاح و مشورہ کرنے کے لیے مصر میں ہیں۔ پروگرام کے مطابق وہ لیبیا کے بارے میں عرب لیگ اور دیگر ملکوں کے حکام سے بھی بات چیت کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر آخری کوششیں بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئیں تو لیبیا کے حالات انتہائی خراب ہو جائیں گے اور اس ملک میں متحارب گروہوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج سے یہ ملک پہلے سے زیادہ تقسیم کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔

ٹیگس