Oct ۲۹, ۲۰۱۵ ۱۴:۵۶ Asia/Tehran
  • ویانا اجلاس، بحران شام کے حل میں مدد دینے کا ایک موقع
    ویانا اجلاس، بحران شام کے حل میں مدد دینے کا ایک موقع

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف ایک اعلی سطحی سیاسی وفد کے ہمراہ ویانا میں شام کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں تیس اکتوبر کو ہونے والے اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس اجلاس میں روس، امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کے علاوہ جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کریں گے جبکہ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میسٹورا اس اجلاس میں سیکریٹری جنرل بان کی مون کی نمائندگی کریں گے۔

بعض مبصرین ویانا اجلاس میں شرکت کے لیے ایران کو دی جانے والی دعوت کو ایران کے ساتھ باہمی تعاون کے سلسلے میں مغرب کے رویے میں آنے والی تیز اور انتہائی اسٹریٹیجک تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ویانا روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں کارنگی مطالعاتی مرکز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شام میں آگے بڑھنے کے لیے کوئی طریقہ کار تلاش کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن بحران شام کی سیاسی راہ حل تلاش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے۔

دو ہزار گیارہ سے شروع ہونے والے بحران شام کے کئی پہلو ہیں، اس بحران کے شروع ہونے میں داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل بھی کارفرما رہے ہیں۔ اس بنا پر اس بحران کے حل کے راستے میں کچھ رکاوٹیں موجود ہیں کہ جن میں سے اہم ترین رکاوٹ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کی غیرملکی حمایت کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔

اس سلسلے میں واضح طور پر امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں منجملہ سعودی عرب اور ترکی کے اقدامات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ شام میں ان کا کردار، حالیہ تبدیلیوں اور داعش کے مقابل شامی فوج کے حق میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے پہلے بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے مفروضے پر مبنی تھا۔

لیکن شام کے حالات نے یہ ظاہر کر دیا کہ بڑھتے ہوئے سیاسی و اقتصادی دباؤ اور دہشت گرد گروہوں کے وسیع حملوں کے باوجود بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی تھیوری کی، شام میں سیاسی و فوجی توازن میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس بنا پر بحران شام کے حل کا واحد آپشن سیاسی راہ حل ہے۔ بنا بریں بہت سے اہم ممالک کی شرکت سے شام کے بارے میں ویانا اجلاس کا انعقاد اس بحران کے حل کے لیے ایک نیا راستہ کھول سکتا ہے۔

دوسری جانب شام میں سعودی عرب کا تخریبی کردار ایک سنگین مسئلہ ہے اور سعودی عرب کو اب مغرب کے ایک دیرینہ اتحادی کی حیثیت سے شام کے بارے میں ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں اپنے اس کردار پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

شام اگرچہ گزشتہ چار سال کے دوران بظاہر اسلام کے نام پر کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے جرائم کے میدان میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اس عمل میں دہشت گردی کے حامیوں نے شام میں جنگ کا دائرہ پھیلنے میں اصلی کردار ادا کیا ہے۔ شام میں داعش کے خلاف زمینی جنگ کے نتیجے میں طاقت کے توازن میں آنے والی تبدیلی کو اس وقت ایک حقیقت کے طور پر قبول کر کے شام کے مستقبل کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا چاہیے۔

امریکی حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کو وائٹ ہاؤس نے سنجیدگی سے لیا ہے، لیکن سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا شام میں ایران کے کردار کو تخریبی ظاہر کرنے کے لیے دیا جانے والا بیان بدستور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سعودی عرب شام میں آنے والی تبدیلیوں پر بےبسی سے پیچ و تاب کھا رہا ہے۔

بہت سے مبصرین شام کے بارے میں ویانا اجلاس میں شرکت کے لیے ایران کو دی جانے والی دعوت کو ایٹمی سمجھوتے کے بعد سعودی عرب کے لیے ایک بڑی شکست قرار دیتے ہیں کہ جس نے اسے انتہائی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ تہران اپنی توانائیوں کو شامی عوام کی حقیقی خواہشات پر مبنی متوازن اور پائیدار راہ حل کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے اور شام میں ایران کے فوجی مشیروں کی موجودگی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

جیسا کہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے بدھ کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران نے ہمیشہ شام کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اب بھی ایران کسی بھی پیشگی شرط کے بغیر شام کے بارے میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کر رہا ہے۔

ٹیگس