Oct ۳۰, ۲۰۱۵ ۱۹:۳۸ Asia/Tehran
  • شیخ باقر نمر کو سزائے موت سنانے پر مبنی آل سعود حکومت کے اقدام کی وسیع پیمانے پر مذمت

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سامنے آنے والے رد عمل کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور آل سعود کی جانب سے سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو طویل المدت قید اور موت کی سزا سنائے جانے کے بعد سعودی عرب کے عوام اور عالمی حلقوں نے سعودی حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔

سعودی عرب کے مشرقی علاقوں کے عوام نے اس ملک کے ممتاز شیعہ عالم دین علامہ شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ العوامیہ کے باشندوں نے جمعرات کے دن جلوس نکال کر شیخ باقر النمر کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے شیخ باقر النمر کی سزائے موت ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا۔ سعودی عرب کی عدالت عالیہ نے چند دن قبل علامہ شیخ باقر النمر کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔سعودی عرب کے عوام کے احتجاج کے علاوہ عالمی حلقوں اور بین الاقوامی شخصیات نے بھی شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنانے پر مبنی آل سعود کے اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان استفن دوجاریک نے کہا ہے کہ بان کی مون نے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ رابطہ کر کے اس ممتاز عالم دین شیخ باقر النمر کو سنائی جانے والی سزائے موت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سزا کے ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوجاریک نے مزید کہا ہے کہ شیخ باقر النمر کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیئے جانے پر مبنی بین الاقوامی مطالبات کے باوجود سعودی عرب کی عدالت نے ان کو سزائے موت سنا دی۔

لیکن اقوام متحدہ کا ادارہ اس فیصلے کا مخالف ہے۔ شیخ باقر النمر سعودی عرب میں ممتاز ترین سیاسی قیدی شمار ہوتے ہیں ان کو آل سعود کے کارندوں نے جولائی دو ہزار بارہ میں قطیف شہر سے عوامی احتجاج کی حمایت کرنے کی بنا پر گرفتار کر لیا تھا۔ پندرہ اکتوبر دو ہزار چودہ کو سعودی عرب کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے الزام میں ان کو سزائے موت سنائی گئی ۔ جس کی عالمی سطح پر شدید مخالفت کی جا رہی ہے ۔

آل سعود حکومت نے حالیہ برسوں کے دوران عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے اپنے تشدد میں شدت پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں سیاسی قیدیوں کی تعداد تیس ہزار تک جا پہنچی ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل سعود کی آمر حکومت نے عوامی اعتراضات کو دبانے کے لئے طاقت کا شدید استعمال شروع کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں انتخابات، مختلف سیاسی جماعتوں اور آزادی صحافت جیسی جمہوریت کی کوئی بھی علامت نہیں پائی جاتی ہے۔ جس کی بنا پر سنہ دو ہزار گیارہ سے آل سعود کی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج میں شدت پیدا ہوئی ہے۔

آل سعود کی جانب سے مخالفین پر کئے جانے والے تشدد کے باوجود اس ملک میں عدل و انصاف کی برقراری کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جس سے بیداری کی اس تحریک کی نشاندہی ہوتی ہے جس کا آغاز شیخ باقر النمر جیسی شخصیات کی کوششوں سے ہوا ہے۔ سعودی عرب کے حالات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل سعود کی حکومت خوف و ہراس پھیلا کر بھی اس ملک کے عوام اور عوامی رہنماؤں کی آواز نہیں دبا سکی ہے۔ آل سعود کی جیلوں میں شیخ باقر نمر کی ثابت قدمی، اسلام کی حریت پسندانہ تعلیمات سے ان کے دستبردار نہ ہونے نیز سعودی عرب میں حکومت مخالف عوامی احتجاج کے جاری رہنے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے عوام اپنے ملک پر مسلط آمرانہ نظام حکومت کا قلع قمع کرنے اور اپنے ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔ ان حالات میں اگر آل سعود کی حکومت شیخ باقر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد کراتی ہے تو اس کا نتیجہ سعودی عرب میں عوامی انقلابی تحریک میں شدت پیدا ہونے اور آل سعود کی ظالمانہ حکومت کے متزلزل ہونے کے سوا کچھ اور برآمد نہیں ہوگا۔