Nov ۰۲, ۲۰۱۵ ۱۸:۰۱ Asia/Tehran
  • اعلانِ بالفور جاری کئے ہوئے اٹھانوے برس ہو گئے
    اعلانِ بالفور جاری کئے ہوئے اٹھانوے برس ہو گئے

آج دو نومبر ہے اور بالفور اعلامیہ ( Balfour Declaration) کو جاری ہوئے آج اٹھانوے برس بیت چکے ہیں۔ سنہ انیس سو سترہ کو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم جمیز بالفور نے ایک بیان جاری کر کے فلسطینی سرزمین میں غاصب اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے لئے عالمی صیہونیزم کے منصوبے کی حمایت کی تھی۔

شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ فلسطین میں صیہونزم کے خواب کو پورا کرنے کے سلسلے میں سب  سےزیادہ موثر برطانوی سیاستدان جیمز بالفور ہیں جنہوں نے اس تاریخی المیئے کے علمبردار کی حیثیت سے سنہ انیس سو سترہ میں بالفور اعلامیہ جاری  کیا۔ اس اعلامیے کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے یہودیوں سے وعدہ کیاکہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ملک کی تشکیل کی حمایت کرے گا۔ یہ وعدہ " بغیر قوم کے سرزمین" ایسی قوم کے لئے جس کے پاس زمین نہیں ہے" کے جھوٹے دعوے کی بنیاد پر جاری کیا گیا تھا۔

جب یہ اعلامیہ جاری ہوا تھا اس وقت فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی کل تعداد تقریبا اس سرزمین میں موجود آبادی کی کل تعداد کا پانچ فیصد تھی اور اس اعلامیے کے جاری ہونے  کے بعد ساری دنیا سے صیہونی مہاجرت کر کے فلسطین آئے تاکہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کردیں اور اور اسرائیل کی آبادی مختلف اقوام سے مل کر تشکیل پائے۔ بالفور اعلامیہ درحقیقت فلسطینی سرزمین پر صیہونیوں کی حکومت کی تشکیل کی جانب پہلا قدم تھا۔

صیہونی اپنی حکومت کی تاسیس کے آغاز سے ہی یعنی 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک ایسے مضبوط حامی کے پیچھے تھےجو ان کے بلند و بالا سیاسی اھداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں انکا ساتھ دے ۔اسطرح فلسطین پر برطانیہ کے تیس سالہ قبضے کا سیاہ دور شروع ہوا جو1918 سے 1948 تک جاری رہا اور اسی سے برطانیہ اور صیہونیت کے سیاسی ملاپ کا آغازہوا۔صیہونی سرغنوں نے ان  تاریخ ساز تین عشروں میں قدس اور فلسطین کو یہودیانے کی کوشش کو سرعت دی۔

صیہونیوں نے اس دور میں فلسطین بالخصوص قدس شہر کی زمینوں کو خرید کے وہاں پر باہر سے آنے والے یہودیوں  کو آباد کیا اور ان علاقوں میں اسکول،یونیورسٹیاں،ہسپتال اور اقتصادی مراکز تعمیر کرکے مقامی فلسطینیوں کو ہرحوالے سے کمزور کیا اور اسرائیل کے نام سے ایک حکومت تشکیل دینے کے لئے زمین ہموار کی۔   بالفور اعلامیہ مشرق وسطی میں غاصب صیہونی حکومت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔برطانیہ نے  مشرق وسطی میں اپنی مکارانہ پالیسیوں کے تحت دہشتگرد صیہونی گروہ کو نہ صرف فوجی تربیت دی بلکہ انہیں فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی اکسایا۔ دہشتگرد صیہونی گروہ نے فلسطینیوں کے قتل عام اور خوف ودہشت کی فضا قائم کرکے فلسطینیوں کو نہ صرف ان کو اپنے گھر بیچنے پر مجبور کیا بلکہ ان کی زرعی زمینوں پر قبضہ کرکے اس علاقے کو  بتدریج فلسطینیوں سے خالی کرالیاتاکہ فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ قائم کرسکیں۔

فلسطین پر صیہونی قبضے کو سڑسٹھ سال بیت چکے ہیں اور یہ علاقہ اس وقت بھی بدستورغاصب صیہونی حکومت اور اسکے مغربی حامیوں کی توسیع پسندی اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کی آگ میں جل رہا ہے۔برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ کے وعدے کے مطابق  مشرق وسطی کا بحران صیہونی پالیسی سازوں اور فلسطین کے غاصبوں کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا اور آج یہی سلسلہ وائٹ ہاؤس کے تعاون اور حمایت سے بدستورجاری ہے۔

ٹیگس