دہشت گردی، علاقائی پالیسیوں پر عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یورپ کا حربہ
-
دہشت گردی، علاقائی پالیسیوں پر عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یورپ کا حربہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کہا ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یورپ کے آلۂ کار ہیں۔
علی شمخانی نے ہفتے کی رات ایران کے ٹی وی چینل ایک کے ساتھ گفتگو کے دوران مزید کہاکہ امریکہ نے داعش مخالف اتحاد تشکیل دینے کے کافی عرصے کے بعد تک بھی داعش کو خاص نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ داعش کی نابودی کے لئے کوشاں نہیں ہے۔
علی شمخانی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ سیٹیلائٹ اور ڈرون طیاروں کے ذریعے داعش پر کاری ضرب لگا سکتا ہے لیکن اس نے ایک سو تیس پروازوں کے دوران صرف بارہ اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔ اور ان اہداف کو بھی اس طرح نشانہ بناتا ہے کہ داعش کو بہت ہی کم جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے عراق اور شام کے حکام کے بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ داعش کے آئل ٹینکروں کے قافلے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ داعش کی مالی ضروریات اسی راستے سے پوری ہوتی ہیں اس لئے وہ ان کو نشانہ نہیں بناتا ہے۔
داعش مخالف اتحاد کی ناقص کارکردگی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کے مقابلے سے متعلق اس کا موقف شفاف نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ سیٹیلائٹ کے ذریعے چھوٹے سے چھوٹے فوجی مراکز کو دیکھ سکتا ہے تو وہ عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کے خفیہ ٹھکانوں سے کیوں مطلع نہیں ہے۔ بنابریں داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کارکردگی میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ امریکہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں دہرا رویہ اختیار کر کے اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے اور شام کی صورتحال دہشت گردی سے متعلق یورپ کی اسی دہری پالیسی کا نتیجہ ہے۔ داعش مخالف اتحاد کا صرف ایک بات پر اتفاق پایا جاتا ہے جو کہ بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی سے عبارت ہے۔ امریکہ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے ہی دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے اور اس نے ترکی اور اردن میں ان کو تربیت بھی دی ہے۔ اور اب وہ نام نہاد اعتدال پسندوں کے نام پر ان کی حمایت پر اصرار کر رہا ہے۔ یوں واشنگٹن اور اس کے اتحادی عملی طور پر القاعدہ اور داعش اور ان سے وابستہ دوسرے دہشت گرد گروہوں کی عملی طور پر حمایت کر رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی کا اشارہ اسی دہری پالیسی کی جانب ہے جو امریکہ نے اختیار کر رکھی ہے۔ امریکہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے دہرے رویۓ کا تعلق دہشت گردی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ کا یہ دہرا رویہ انسانی حقوق اور ایٹمی معاملے میں بھی نظر آتا ہے۔ جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہےکہ امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت اور قبضے اور یمن میں سعودی عرب کی جنگ پسندانہ پالیسی کی حمایت کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
خطے میں رونما ہونے والے واقعات سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ اور امریکہ کی طویل المیعاد پالیسیوں میں ایک طرح کا ربط پایا جاتا ہے۔ امریکہ کے معروف فلسفی اور مفکر نوام چامسکی نے نومبر دو ہزار چودہ میں مصر سے شائع ہونے والے اخبار الاہرام میں ایک مقالے میں خطے میں دہشت گرد گروہ داعش کے پھیلاؤ کو امریکہ اور سعودی عرب کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
نوام چامسکی کا نظریہ ہے کہ اگر واشنگٹن نیک نیتی کے ساتھ داعش کا مقابلہ کرتا تو اسے مغربی ایشیا، مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں دہشت گرد گروہوں کی مالی مدد کرنے اور وہابیت اور انتہا پسندی کے مرکز کے طور پر سعودی عرب کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا ہے۔ اس کی تصدیق ان رپورٹوں سے بھی ہوتی ہے کہ جن میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی نے اردن، سعودی عرب اور قطر کے طیاروں کو استعمال کر کے دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کو مسلح کرنے کے مقصد سے اس گروہ کے زیر قبضہ علاقوں میں اسلحے کی کئی کھیپیں اتاریں اور ان طیاروں نے ترکی اور اردن کی جانب تقریبا دو سو پروازیں انجام دیں۔