تیل کی قیمت میں کمی آنے پر آئی ایم ایف کی تشویش
-
تیل کی قیمت میں کمی آنے پر آئی ایم ایف کی تشویش
عالمی مالیاتی فنڈ نے خلیج فارس کے علاقے کے عرب ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ، تیل کی قیمت میں آنے والی کمی سے اپنی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اقتصادی کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کریں۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے اس مسئلے کو خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کی مالی و اقتصادی تعاون کی کمیٹی کے اجلاس میں بھی پیش کیا یہ اجلاس اتوار کے روز دوحہ میں منعقد ہوا۔ انھوں نے ان ممالک سے کہا کہ انھیں اپنے بجٹ میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس طریقے سے وہ خود کو دراز مدت میں تیل کی قیمت میں کمی کے مطابق قرار دے سکیں۔
تیل کی مانگ میں کمی کے باوجود، سعودی عرب کی جانب سے یومیہ تقریبا ساڑھے دس ملین بیرل تیل کی جاری پیداوار سے، کافی عرصے سے تیل کی عالمی منڈیاں متاثر چل رہی ہیں اور تیل کی عالمی قیمتوں میں توازن کے تحفظ کے لئے اوپک کی کوششوں کے باوجود، سعودی عرب بدستور مخالف سمت میں قدم بڑھا رہا ہے۔
سعودی عرب، اپنے اس اقدام کی وجہ، اوپک سے ہٹ کر دیگر ممالک منجملہ امریکہ سے، شیل تیل کی پیداوار کے شعبے میں پائی جانے والی رقابت سے متعلق اپنی آئل پالیسی بتاتا ہے جبکہ اس کا اصل مقصد، ایران اور روس سمیت، تیل پیدا کرنے والے تمام ملکوں کو نقصان پہنچانا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمت اگر آئندہ سال بھی، پچاس ڈالر سے کم رہتی ہے تو تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کے لئے سخت مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ سعودی عرب کی یہ کار کردگی، خواہ وہ جس مقصد سے بھی رہی ہو، تیل سے وابستہ تمام ممالک منجملہ خود سعودی عرب کے لئے بھی اقتصادی طور پر شدید نقصان پہنچنے کا باعث بنی ہے جبکہ اس کا نقصان، ایران سمیت دیگر ملکوں کو بھی پہنچا ہے۔
روئٹرز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے بھی، جو تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک شمار ہوتا ہے، اپنے کئی آئل ٹرمینل بند کردیئے ہیں۔صنعتی ملکوں منجملہ امریکہ کی معیشت میں تیل، ایک اہم اور اسٹریٹیجک وسیلہ ہے۔اس بناء پر ممکن ہے تیل کی قیمت میں کمی، کچھ عرصے کے لئے ان کے فائدے میں رہے مگر تیل کی قیمت میں کمی کے جاری عمل سے، تیل کی پیداوار اور اس کی سپلائی توازن کے تحفظ پر، منفی اثر پڑے گا۔اس حقیقت کو قابل ذکر زر مبادلہ کے حامل سعودی عرب جیسے ملکوں کے لئے بھی نظر انداز کرنا، ناممکن ہوجائے گا۔اس بارے میں قابل غور نکتہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک سمیت تیل پیدا کرنے والے ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق عالمی مالیاتی فنڈ کی حالیہ پیش گوئی ہے، جو ان ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہوگی۔
آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر تیل کی قیمت پچاس ڈالر کے آس پاس رہتی ہے، تو آئندہ پانچ برسوں یا اس سے بھی کم عرصے میں، علاقے کے اکثر ملکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ گذشتہ سال اگست میں سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر، سات سو سینتیس ارب ڈالر تھے، جو بجٹ خسارے کے ازالے کے لئے نکالی جانے والی رقم کی بناء پر، رواں سال اگست میں کم ہوکر چھے سو تہتّر ارب ڈالر پر پہنچ گئے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق یہ عمل، اگر یونہی جاری رہتا ہے تو سن دو ہزار اٹھارہ میں سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر، دو سو ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گے۔اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی صلاح ومشورے کو ہوسکتا ہے کہ ایک انتباہ شمار کیا جائے مگر اس بحران کے اثرات، اس مشکل سے کہیں زیادہ ہیں کہ جنھیں کسی عارضی پروگرام کے ذریعے، قابل حل سمجھا جائے۔
چنانچہ سعودی عرب، اگرآئی ایم ایف کی تجویز کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنی غیر منطقی پالیسیوں، منجملہ بحرین اور یمن میں اپنی فوجی مداخلت پر نظرثانی کرے خاص طور سے ایسی صورت میں کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے اس بات کی توقع ظاہر کرتے ہوئے کہ مستقبل میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کا عمل یونہی جاری رہ سکتا ہے، خلیج فارس کے عرب ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا بجٹ صحیح اور متوازن بنانے کی کوشش کریں مگر اس کے لئے یقینی طور پر سیاسی عزم اور فیصلے کی ضرورت ہے۔