شام کے بحران سے متعلق ویانا میں دوسرا اجلاس
-
شام کے بحران سے متعلق ویانا میں دوسرا اجلاس
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ اگر امریکی حکام نے شام سے متعلق ویانا اجلاس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایران اس اجلاس میں شرکت نہیں کرےگا۔
حسین امیر عبداللہیان نے لبنان کے المیادین ٹی وی سے گفتگو کے دوران کہا کہ امریکہ ویانا اجلاس دو کو جان بوجھ کر ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حسین امیر عبداللہیان نے اس بات کوبیان کرتے ہوئےکہ ایران تمام فریقوں کی ہم آہنگی کے بغیر شام کے بارے میں ویانا دو اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا ، کہا کہ ایران کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ بعض ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ تمام ممالک کی موافقت کے بغیر ایسے اقدامات انجام دے کہ دوسرے ممالک کی موافقت کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
حسین امیر عبداللہیان کے مطابق ویانا دو بین الاقوامی اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے بااثر ممالک کی شرکت کے ساتھ کئے جانے چاہئیں۔ واضح رہے کہ ویانا دو بین الاقوامی اجلاس ہفتہ چودہ نومبر کو ہوگا۔
تیس اکتوبر کو ہونے والے ویانا اجلاس ایک کے بیان کی نویں شق کے مطابق اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں نے شام کے بارے میں مذاکرات میں اس ملک کے تمام فریقوں اور بااثر گروہوں اور جماعتوں کی شرکت کا راستہ ہموار کرنے سے اتفاق کیا۔ ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار شام کی حکومت کے مخالفین اور دہشت گردوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنے پر ہے۔ ویانا میں شام سے متعلق آئندہ اجلاس کا مقصد بھی شام کی حکومت کے حقیقی مخالفین کی شناخت کے بارے میں بحث کرنا ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور ترکی نے چونکہ نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کی اصلاح گھڑی ہے اور وہ ان کو ہتھیار فراہم کرتےہیں اس لئے شام کی حکومت کے مخالفین اور دہشت گردوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا مشکل ہو چکا ہے اور شام میں سرگرم طاقتیں اس مسئلے کو سیاسی زاویۂ نگاہ سے بھی دیکھ رہی ہیں۔
شام کے گروہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں غیر ملکی سرگرم طاقتوں کی شرکت کو اپنے ملک کی تقدیر سے متعلق شام والوں کے فیصلے اور بشار اسد کی سیاسی حیات کی بقا کا نعم البدل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر ایسے حل اور کوشش سے ، کہ جس میں شام کےعوام کی مرضی شامل نہیں ہوگی، اس ملک کا بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
ویانا اجلاس شام کے عوام کے بجائے فیصلے کرنے اور بشار اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے بارے میں سودے بازی کا میدان نہیں ہے۔ کسی بھی غیر ملکی طاقت کو شام کے عوام کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش اور ان کے لئے سیاسی عمل سے متعلق اقدامات کا تعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اپنے ملک کے مستقبل اور بشار اسد کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اس ملک کے عوام کو حاصل ہے اور ایک آزاد جمہوری عمل کے ذریعے صرف وہی بشار اسد کے اقتدار میں باقی رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔
بشار اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے مقصد سے ٹائم فریم طے کرنے سے متعلق ہر طرح کی تجویز آخرکار ناکامی سے دو چار ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کے عوام اور حکام اس بات کو ہر گز قبول نہیں کریں گے کہ دوسرے ملک حتی کہ شام کے دوست بھی ان کے لئے کوئی بدعت قائم کریں۔