امریکہ کی جانب سے دہشتگردوں کی مدد
امریکہ بدستور شام میں دہشتگردوں کی مدد کررہا ہے اور بقول خود اعتدال پسند مسلح گروہوں کی داعش کے خلاف مدد کررہا ہے ۔
خبری ذرایع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے شام کے مخالف دہشتگرد گروہوں کے لئے ایک بار پھر ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی ہے۔
یہ دوسری بار ہے کہ امریکہ نے شام کے مخالف گروہوں کو ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی ہے۔
بتایا جاتا ہےکہ یہ گروہ بارہ یونٹوں میں تقسیم شدہ ہیں اور پانچ ہزار جنگجوؤں پرمشتمل ہیں۔
امریکہ یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ مسلح گروہ داعش کے خلاف لڑرہے ہیں۔
ان ذرایع کے مطابق امریکہ نے گذشتہ سنیچر کو زمین کے راستے ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی ہے۔
شام میں نام نہاد اعتدال پسند گروہوں کے حق میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی حمایت ایسے حالات میں ہے کہ متعدد رپورٹوں کے مطابق امریکہ کے بھیجے ہوئے ہتھیار سرانجام داعش، جبھۃ النصرۃ اور ان سے وابستہ دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
اب تک امریکہ نے شامی جنگجوؤں کے لئے پانچ سو اسی ملین ڈالر خرچ کئے ہیں لیکن چونکہ اس سے بہت ہی کم فائدہ ہوا ہے لھذا امریکی حکومت کے اس پروگرام پر ہرطرف سے تنقیدیں جاری ہیں۔
امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی کھیپیں ٹھیک ایسے حالات میں شام میں سرگرم عمل دہشتگرد گروہوں کے لئے بھیجی گئی ہیں کہ ان ہی دنوں ویانا میں شام کےبحران کا راہ حل تلاش کرنے کے لئے اجلاس منعقدہوا تھا۔
سنیچر چودہ نومبر کو بڑی طاقتوں اور مشرقی وسطی کے بعض ملکوں اور عالمی اداروں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا تھا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔
دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر روس سے براہ راست حملے کرنے کی شام کی درخواست کے بعد شام کے تعلق سے امریکہ کی پالیسیوں میں تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں دہشتگردی اورعراق و شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں کے تعلق سے امریکہ کی دوہری پالیسیوں میں شدت لانے کی غرض سے آئی ہیں۔
ان کا ایک تازہ نمونہ یہی شام میں مسلح گروہوں کے لئے ہتھیار بھیجنا ہے۔
واضح رہے تجربے سے معلوم ہوچکا ہے کہ امریکہ اپنی ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے دہشتگردی کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔
اندھی دہشتگردی جو اب انسانیت کے خلاف خطرہ بن گئی ہے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد دہشتگردی کی نئی لہر کے آغاز سے بہت سے ملکوں خاص طور سے شام کو شدید نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔
گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ نے دہشتگردی کی اپنی تعریف پیش کی اور سلامتی کونسل کو مجبور کیا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف ایک قرارداد منظور کرے جس پر عمل کرنا سب کے لئے ضروری ہو۔
اس زمانے میں شاید ہی کوئی یہ سوچتا ہوگا کہ دہشتگردی طاعون کی طرح دنیا بھر میں پھیل جائے گی اور دنیا کو ایسے المناک حالات سے روبرو کردے گی کہ اقوام متحدہ بھی اس کے سامنے بے بس ہوجائے گی اور دہشتگردوں کی مجرمانہ کاروائیوں کی محض ایک تماشائی بن جائے گی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش بنیادی طور پر امریکہ اور صیہونی حکومت کی جاسوس تنظیموں کا جنم دیا ہوا ہے۔
دہشتگردی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہونا نہایت ضروری ہے لیکن یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں سے مقابلہ کیا جائے اور شام کی حکومت کو بھی کمزور کیا جائے۔
شام کے بحران میں امریکہ کی اسٹراٹیجی صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مبنی ہے لیکن ہر ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر ملک کے باشندوں سے متعلق ہے اور وہی اس بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف جنہوں نے ویانا اجلاس میں شرکت کی تھی کہا ہے کہ دوسرے ممالک یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ بشار اسد مستقبل میں شام میں کیا کردار ادا کریں گے بلکہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق شام کے عوام کو حاصل ہونا چاہیے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ شام وعراق اس وقت امریکہ اور مغربی ملکوں کی دوہری پالیسیوں کا شکار ہیں اور اس پالیسی نے دہشتگردی کی بیخ کنی کرنے کےبجائے اسے فروغ دیا ہے۔