اقوام متحدہ میں شام مخالف قرارداد کی منظوری دہشت گردوں کے لیے تحفہ
-
اقوام متحدہ میں شام مخالف قرارداد کی منظوری دہشت گردوں کے لیے تحفہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں انسانی حقوق کے موضوع سے غلط فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں بعض حکومتوں کے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی میں شام میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں ایک قرارداد کی منظوری دی گئی۔
سعودی عرب کے نمائندے عبداللہ المعلم نے یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے شام میں بحران کی حقیقی وجوہات بیان کیے بغیر شامی حکومت کو اس ملک کے عوام کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس سیاسی قرارداد میں اسی طرح شام میں ایران کے عسکری کردار کے بارے میں کہ جو صرف مشاورت کی حد تک ہے، بعض دعوے کیے گئے ہیں۔
اس قرارداد پر اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔
غلام حسین دہقانی نے اس سلسلے میں کہا کہ شام میں ایران کی موجودگی شامی حکومت کی باضابطہ دعوت کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے اس قسم کے متن کی منظوری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور اپنی سرزمین میں امن و امان قائم کرنے کے لیے حکومتوں کے حق کے منافی ہے۔
انھوں نے اقوام متحدہ میں شام مخالف قرارداد کی منظوری کو دہشت گردوں کے لیے ایک تحفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے دعوے کرنے کا مقصد ان طاقتوں اور گروہوں سے انتقام لینا ہے کہ جنھوں نے اب تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں موثر ترین کردار ادا کیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب بھی امریکہ اور اسرائیل کی طرح ان بےبنیاد الزامات سے کچھ طے شدہ واضح مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ اتنا زیادہ سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے کہ اس قرارداد کے مضمون کے بارے میں بعض ممالک نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔
لگزمبرگ کے نمائندے نے کہ جو یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی میں بات کر رہے تھے، شام میں ایران کے عسکری مشاورتی کردار کے سلسلے میں درج شدہ پیراگراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کی قراردادوں کو سیاسی رنگ دینے سے پرہیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہنگری کے نمائندے نے بھی اس قرارداد کے بارے میں مذاکرات کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایران سے متعلق پیراگراف سیاسی مقاصد کا حامل ہے۔ جاپان اور برازیل کے نمائندوں نے بھی اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔
یہ بات مسلّم ہے کہ مغرب اس وقت شام میں اپنی غلطیوں کی قیمت چکا رہا ہے اور سعودی عرب کو بھی ایسے ہی مسئلے کا سامنا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور ترکی کی جانب سے دہشت گردی کی کھلی حمایت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ س
عودی عرب کو آج ایسے حقائق کا سامنا ہے کہ جس کا جواب اسے دینا ہو گا؛ لیکن اپنی صورت حال کے بارے میں جواب دینے کے بجائے وہ دوسروں پر الزام تراشی کر رہا ہے۔
امریکہ بھی عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بجائے اپنی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی حمایت پر پردہ ڈال رہا ہے۔
اگر چار سال پہلے شام میں دہشت گردی کی بحث کو سنجیدگی سے لیا جاتا اور مغرب دہشت گرد گروہوں کو اچھے اور برے دہشت گردوں میں تقسیم کر کے ان کی حمایت نہ کرتا تو آج دہشت گردی اتنی زیادہ پھیلی ہوئی نہ ہوتی۔
بلاشبہ دہشت گردی ایک مذموم چیز ہے اور یہ ہر شکل میں قابل مذمت ہے؛ لیکن جب دہشت گردی کے سرخیل دہشت گردی پر تشویش کا نقاب چہرے پر اوڑھ لیتے ہیں تو پھر دہشت گردی اور اس کو انجام دینے والوں اور حامیوں کے درمیان سرحد کی تشخیص بہت مشکل اور شاید ختم ہو جاتی ہے۔
سعودی عرب کہ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہے، خود دہشت گردانہ انتہا پسندی اور تکفیری تحریکوں کا ایک حصہ ہے۔
اس بنا پر وہ اپنے حقیقی چہرے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جھوٹے دعوے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ داعش علاقے کے بعض عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے پیسے اور ہتھیاروں اور امریکہ کی امداد سے وجود میں آیا ہے۔
اس بنا پر اس قسم کی قرارداد کی منظوری اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے ڈھانچے اور طریقہ کار کی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ جو دہشت گردوں کے حقیقی حامیوں کو اس نظام سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔