عالمی کانفرنس میں ایران کے موقف کا اعلان
-
عالمی کانفرنس میں ایران کے موقف کا اعلان
شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں تکفیری دہشت گردی، علاقے اور علاقے سے باہر کے بعض ممالک کے مداخلت پسندانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا نتیجہ ہے -
یہ جملہ ، سوئینررلینڈ کے شہر مونٹروی میں مغربی ایشیا کے حالات کے اسباب و علل کا جائزہ لینے کے لئے" عالمی پالیسی" کے زیر عنوان منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کے بیانات کا ایک حصہ ہے-
ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشرق وسطی کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا اور مشرق وسطی کے نئے سیکورٹی نظام کی بات کی -
ایران کے نائب وزیر خارجہ کے مطابق مشرق وسطی کو موجودہ عبوری دور میں نئے سیکورٹی نظام کی ضرورت ہے- اس نئے نظام کی افادیت کا راز یہ ہے کہ ، تمام حکومتیں مل کر کردار ادا کریں اور علاقے کے عوام کے جائز مطالبات پر توجہ دیں -
مشرق وسطی کے ممالک کا بحران اور شام ، یمن اور عراق جیسے بڑے ممالک میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری خونریز اور پرتشدد جھڑپیں اور جنگ ایک علاقائی بحران سے بالاتر ہوچکی ہے اور اس وقت عالمی سطح پر ایک اہم چیلنج بن چکی ہے-
دنیا میں چاروں طرف بہت سے ممالک کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے ایسے خطرات جنھیں عالمی برادری گذشتہ برسوں میں صرف مشرق وسطی اور اس علاقے کے عوام تک منحصر سمجھتی تھی-
یہ خیال خام کہ بدامنی اور دہشت گردی کو صرف ایک یا چند ممالک کی سرحدوں کے اندر محدود رکھا جا سکتا ہے اور دوسرے ممالک اس سے محفوظ رہیں گے ، اس بات کا باعث بنا کہ علاقے سے باہر کے بہت سے ممالک نہ صرف مشرق وسطی کے بحران کے حل میں مدد نہ کریں بلکہ غیرعاقلانہ پالیسیوں سے ہر روز جنگ کی اس آگ کو مزید بھڑکائیں-
کئی ممالک کے دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کہ جس نے گذشتہ پانچ برسوں میں شام کو تباہ کن اور ہولناک جنگ کا میدان بنا دیا ہے ، آج دہشت گردانہ اقدامات کا دائرہ وسیع ہونے کے باعث ایک ایسی آگ میں تبدیل ہو گیا ہے کہ جس کے شعلوں نے دہشت گرد گروہوں کے حامیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے-
اس کے علاوہ فوجی وسائل اور دہشت گردوں کو مسلح کر کے مشرق وسطی کے ممالک میں سیاسی تبدیلی کے لئے علاقے سے باہر کے ممالک کی مداخلت بھی ناکام ہوگئی ہے اور وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے یہاں تک کہ ان مداخلتوں سے امن و استحکام کے قیام کے بجائے علاقے کے ممالک میں عدم استحکام اور بدامنی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا تاہم مغرب کے مد نظر سیاسی تبدیلیاں بھی پیدا نہیں ہوئیں-
ان برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشتہ تاکید کی ہے کہ عارضی مقاصد تک پہنچنے کے لئے دہشت گردوں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا ، بحران اور بد امنی کو اتنا بڑھا دے گا کہ اسے کم مدت میں آسانی سے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا-
یورپ کی سدحدوں تک پناہ گزینوں کے ہجوم سے پیدا ہونے والے بحران کے بعد یورپ کے مرکز اور بڑے دارالحکومتوں میں بدامنی کی لہر اور یورپ میں گذشتہ دنوں رونما ہونے والے واقعات مشرق وسطی کے علاقے کے ممالک میں مفادپرستانہ اور نامعقول مداخلتوں کے انجام کی جانب سے بے توجہی کے دیگر نتائج ہیں-
ایران کے نائب وزیر خارجہ کے بقول گذشتہ صدیوں کے مقابلے میں مشرق وسطی کے موجودہ بحرانی حالات میں سب سے اہم فرق، بحران ، دہشت گردی و بدامنی کو اس علاقے سے دنیا کے دیگر علاقوں تک منتقل کرنا ہے البتہ اس فرق کی وجہ ، گلوبل ویلیج میں سیکورٹی کے نیٹ ورک کی شکل اختیار کرنا اور دنیا کے تمام علاقوں کا ایک دوسرے سے بہ آسانی متاثر ہونا ہے-
ان حالات میں واضح ہے کہ دہشت گردی کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کرنے اور اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرنے کا نتیجہ ، مشرق وسطی اور عالمی سیکورٹی کی صورت حال مزید خراب ہونے کی صورت میں نکلا ہے-
تہران کا خیال ہے کہ علاقے کے بحرانوں کا کوئی فوجی راہ حل نہیں ہے اور علاقے میں طاقت کا استعمال صرف نفرت اور انتہا پسندی کے عمل کو فروغ دینا ہے اور تکفیری سوچ سے پیدا ہونے والے بحرانوں اور چیلنجوں کے حل کے لئے سیاسی طریقہ کار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے-
اس سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے بھی ایک مقالے میں جو شام کے حالات کے بارے میں سامنے آیا ہے، لکھا ہے کہ بیرونی بازی گروں کو مداخلت اور اپنے مطالبات مسلط کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے جانے پہچانے تکفیری دہشت گرد گروہوں کے ساتھ بلاقید و شرط مقابلے کے ساتھ ہی حکومت شام کی مدد کرنا چاہئے تاکہ شامی گروہوں کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی قومی آشتی کے عمل کے لئے سیاسی معاہدے اور شام کی رائے عامہ سے رجوع کر کے موجودہ بحران سے نکلنے کی جانب گامزن ہونے کی زمین ہموار ہو-