پاکستان اور افغانستان کا دسواں اقتصادی اجلاس
-
پاکستان اور افغانستان کا دسواں اقتصادی اجلاس
اسلام آباد میں پاکستان اور افغانستان کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کے مشترکہ کمیشن کا دسواں اجلاس، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی دور کرنے اور اقتصادی ، تجارتی اور تعمیراتی تعاون کو فروغ دینے کی سم+ت میں ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے-
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اجلاس میں دو ہزار سترہ تک تجارتی لین دین کی سطح پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے ، افغان تاجروں کے لئے ویزہ جاری کرنے میں سہولت، اور مواصلاتی راستوں نیز سو بیڈ کے ہاسٹل کی تعمیر سمیت افغانستان میں پاکستانی پروجیکٹوں پر جلد سے جلد عمل درآمد کے بارے میں اتفاق رائے ہوا-
اس وقت افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سالانہ تجارتی لین دین کی قدر دو سے ڈھائی ارب ڈالر ہے جس میں افغانستان کی برآمدات کا حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے-
افغانستان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کے مشترکہ کمیشن کا دسواں اجلاس تین مہینے پہلے ہونے والا تھا لیکن افغانستان کے وزیر اقتصاد و خزانہ نے دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی کے باعث اپنے دورہ اسلام آباد کا پروگرام ملتوی کر دیا تھا-
اس بات کے پیش نظر کہ افغانستان کے تاجر، عام طور سے اپنی مصنوعات اور سامان کراچی بندرگاہ سے درآمد کرتے ہیں، افغانستان کی اقتصادی صورت حال اسلام آباد اور کابل کے درمیان سیاسی و سیکورٹی تعلقات کے زیر اثر رہتی ہے-
طالبان کے سابق سرغنہ ملا عمر کی موت کے اعلان اور طالبان و افغانستان حکومت کے درمیان امن مذاکرات معطل ہو جانے کے بعد کہ مختلف حلقے جس کا باعث اسلام آباد کو سمجھتے ہیں ، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئےتھے-
طالبان کے حملوں میں شدت ، دھماکے اور قندوز سمیت افغانستان کے بعض اہم شہروں پر اس گروہ کے قبضے کے باعث افغانستان میں پاکستان سے نفرت کی لہر تیز ہوگئی- یہاں تک کہ افغانستان میں بعض تجارتی اور اقتصادی حلقوں نے پاکستان سے دوا سمیت دوسری چیزوں کی درآمدات کا بائیکاٹ کر دیا-
یہ ایسے عالم میں ہے کہ افغانستان کی منڈی ، پاکستانی مصنوعات کے لئے اہم مارکیٹ شمار ہوتے ہیں - اس کے علاوہ افغان تاجروں کے علاقے کی دوسری منڈیوں کی جانب مائل ہونے اور مواصلاتی راستے ایجاد کرنے سے پاکستان کو افغانستان میں اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کے نتائچ پر تشویش پیدا ہوگئی- اس بنا پر پاکستان کے اقتصادی حکام نے کوشش کی کہ کسی طرح اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں کشیدگی کم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو-
اس بات کے پیش نظر کہ افغان صدر اشرف غنی سمیت اس ملک کے حکام کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہو کر گذرتا ہے، امید رکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کا دوبارہ آغاز، افغانستان میں امن کے عمل میں اسلام آباد کا تعاون حاصل کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا-
افغانستان میں سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان پر پاکستان کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے کا ایک ہتھکنڈہ اس ملک میں امن کے عمل میں رخنہ ڈالنا ہے تاکہ کابل حکومت ، اسلام آباد کے تحفظات اور مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے-
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر طرح کا اقتصادی اور تجارتی تعاون اور افغانستان میں تعمیراتی منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے امن و سیکورٹی کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد کے وعدوں پر عمل درآمد کہ جس پر مشترکہ کمیشن میں بھی تاکید کی گئی ہے، افغانستان میں قیام امن میں اسلام آباد کی مدد کو ضروری اور ناقابل اجتناب بناتا ہے- بالخصوص یہ کہ حکومت پاکستان، چین کے ساتھ سرمایہ کاری کی قراردادوں پر عمل درآمد کی زمین ہموار کرنے کے لئے تیار ہے کہ جس کے لئے علاقائی سیکورٹی ضروری ہے-
پاکستان اور افغانستان کے تجارتی اور اقتصادی تعاون کے مشترکہ کمیشن کے دسویں اجلاس کے انعقاد کے ساتھ ہی قطر میں طالبان کے سیاسی شعبے کے نئے سربراہ کا تعین کہ جس کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے ، سیاسی اور سیکورٹی میدانوں میں دونوں ملکوں کے تعاون کے لئے نوید بخش بھی ہو سکتا ہے-