ابوظبی میں بحران شام کے بارے میں جان کیری کی مشاورت
-
ابوظبی میں بحران شام کے بارے میں جان کیری کی مشاورت
امریکی وزیر خارجہ جان کیری مختلف مقاصد کے لئے مشرق وسطی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے کے پہلے مرحلے میں انہوں نے ابوظبی میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔
جان کیری نے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی وزیر اعظم کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور انتفاضہ قدس شروع ہونے کے بعد فلسطینی سرزمینوں کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ بھی لیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کے دن سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زائد آل نہیان کے ساتھ ابوظبی میں شام کے بحران کے بارے میں سہ فریقی مذاکرات انجام دیئے۔ تینوں فریقوں نے علاقائی مسائل اور دو طرفہ سیکورٹی کے امور منجملہ شام میں جنگ اور داعش سے مقابلے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔
امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے جنیوا اعلامئے کے مطابق شام میں سیاسی اقتدار کی منتقلی کے لئے چند طرفہ کوششوں کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کا مشترکہ ہدف مختلف اقوام والے ملک شام کو استحکام سے ہمکنار کرنا اور اس میں قومی اتحاد پیدا کرنا ہے۔
امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ممالک شام کے صدر بشار اسد کے مخالف اتحاد میں شامل ہیں۔ ان تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شام کے نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کی حمایت کریں گے۔
امریکہ سعودی عرب، قطر، ترکی اور کسی حد تک متحدہ عرب امارات کے ساتھ شام کے بحران کے بارے میں تعاون کر رہا ہے۔ واشنگٹن بشار اسد کے مخالفین کے علمبردار کے طور پر حالیہ پانچ برسوں کے دوران مختلف حربوں کے ساتھ استقامت کے ایک مضبوط ستون کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام، بشار اسد کی صدارت میں مشرق وسطی کے علاقے میں امریکہ کی توسیع پسندی کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے اور وائٹ ہاؤس اپنے اتحادی یعنی صیہونی حکومت کو راضی رکھنےکے لئے شام میں بشار اسد کی حکومت اور خطے کے سیاسی ڈھانچے کو بدلنے کے مقصد سے ہر طریقہ آزما رہا ہے۔
امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دہشت گردوں کو شام بھیجنے اور ان کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کرنے کے سلسلے میں کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے اس میدان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ میدان جنگ میں ملنے والی ناکامی کا ازالہ نام نہاد سفارتی میدان میں کرنے کے درپے ہے۔
ابوظبی میں جان کیری کا امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سیاسی انتقال کے بارے میں گفتگو کرنا بشار اسد جیسی مضبوط رکاوٹ کو راستےسے ہٹانے کی کم اخراجات پر مشتمل ایک سیاسی کوشش ہے۔
امریکہ شام کے بحران کے سلسلے میں دہشت گردوں کی پراکسی وار کے ذریعے حاصل نہ ہونے والے اپنے اہداف سیاسی میدان میں اور مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کے درپے ہے۔
شام کے بحران میں ایران کے مثبت کردار اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں روس کی بروقت شرکت کی وجہ سے امریکہ کے موقف میں کسی قدر تبدیلی آئی ہے اور اب اس نے شام کے بحران کے سیاسی حل کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے اور وہ شام کے عوام کے براہ راست کردار پرتوجہ دیئے بغیر سیاسی اقتدار کی منتقلی جیسے مسائل اٹھا کر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے درپے ہے۔
ایران اور روس نے امریکی منصوبے سے آگاہ ہونے کے پیش نظر بارہا تاکید کی ہے کہ کسی کو بھی شام کے عوام کے بجائے فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور اس ملک میں ہر طرح کی سیاسی تبدیلی کا دار و مدار اس ملک میں آزادانہ جمہوری عمل میں عوام کے کردار پر ہے۔
شام کے بحران سے امریکہ کی ان تمام پالیسیوں کے تضادات سامنے آگئے جن کا اس نے اعلان کیا ہے اور جن کو وہ عملی جامہ پہنا رہا ہےکیونکہ وہ ایک طرف شام کے اعتدال پسند دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری جانب سیاسی راہ حل کا دفاع کر رہا ہے حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ان کا مقصد بشار اسد کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔
امریکی حکام مغربی ایشیا پر تسلط حاصل کرنے کی راہ میں بشار اسد کو ایک بڑی رکاوٹ جانتے ہیں اس لئے وہ مختلف حربوں کے ذریعے اس رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹانے کے درپے ہیں۔