Nov ۲۶, ۲۰۱۵ ۱۷:۲۸ Asia/Tehran
  • روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے بعد ترکی کے عوام کی تشویش
    روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے بعد ترکی کے عوام کی تشویش

خطے کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ ترکی کے عوام کو روس کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کشیدہ ہونے پر شدید تشویش لاحق ہے۔

ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے کے بعد ترکی کی رائے عامہ میں یہ مسئلہ تقریبا ایک سوال بن کر رہ گیا ہے کہ کیا ترقی و انصاف پارٹی اپنے ملک میں قیام امن پر مبنی اپنے انتخابی وعدے کی پابندی کرے گی؟ قیام امن کے مقصد کے تحت ہی بہت سے ترک رائے دہندگان نے اپنے ووٹ ڈالے تھے۔ ان رائے دہندگان کو توقع تھی کہ ترقی و انصاف پارٹی کے سربراہ داوود اوغلو اپنی ڈاکٹرائن کے ایک اصول یعنی ہمسایوں کے ساتھ عدم کشیدگی نیز ترکی کی خارجہ پالیسی کے ایک دیرینہ اصول یعنی "گھر میں امن اور دنیا میں امن " کو اپنائیں گے۔ لیکن بظاہر ترک رائے دہندگان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا ہے۔

ہمسایوں کے ساتھ عدم کشیدگی کے اصول کو نہ صرف شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ ترکی نے روس کا لڑاکا طیارہ مار گرانے کے ذریعے ، کہ جو روسی حکام کے دعوے کے مطابق ترکی کی فضائی حدود میں بھی داخل نہیں ہوا تھا، ثابت کردیا ہے کہ اس نے دنیا میں امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جیسا کہ برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبارات نےلکھا ہے کہ ترکی نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

دریں اثناء ترکی کی حکومت کو ملک کے اندر بھی پی کے کے کے ساتھ جھڑپوں اور تشدد کی نئی لہر کا سامنا ہے جس کے ترکی کی داخلی سیکورٹی پر بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان تمام امور کے باعث جہاں ترکی کے عوام کو اپنے ملک کے سیاسی استحکام پر تشویش لاحق ہوئی ہے وہیں اس ملک کا اقتصادی استحکام بھی خطرے کی زد میں آگیا ہے۔

روسی حکام نے اپنے شہریوں سے کہا ہےکہ وہ اپنا ترکی کا سیاحتی سفر منسوخ کر دیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب جرمنوں کے بعد روسی شہری ترکی کی سب سے زیادہ سیاحت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے عوام میں یہ تشویش بھی پھیل گئی ہے کہ کیا روس کے ساتھ ان کے ملک کے تعلقات کی کشیدگی دونوں ملکوں کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے مختلف پہلووں پر اثر انداز ہوگی۔

ترکی، جرمنی کے بعد روس سے گیس خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ روس، ترکی کو پچیس ارب ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کرتا ہے جبکہ ترکی روس کو چھ ارب ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کرتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی کی بہت سی تعمیراتی کمپنیاں روس میں سرگرم عمل ہیں۔

اگرچہ روس اور ترکی کے تعلقات میں جاری کشیدگی کے ان ممالک کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات پر اثرانداز ہونے کے سلسلے میں متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں لیکن یہ تعلقات ماسکو اور انقرہ کی فوجی اور سیاسی کشیدگی سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔

ترکی کے صدر اردوغان نے غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بعض مواقع پر سابق سلطنت عثمانیہ کی عظمت ظاہرکرنے کی کوشش کی ہے ۔ روس اور ترکی کے صدور ایک دوسرے کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں ۔ روسی صدر پوتن نے بھی حال ہی میں ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نے اس اقدام کے ذریعے ہمارے ساتھ جنگ کا اعلان کیا ہے اور اس کا انتقام وہ جواب ہوگا جو ترکی کے ڈکٹیٹر کو دیا جائے گا۔

اس کے باوجود ترکی کے حکام کے موقف میں کوئی نمایاں لچک سامنے نہیں آئی ہے اور وہ مسلسل شام کے قانونی صدر بشار اسد کی مخالفت اور شام میں اپنے مفادات کے تحفظ پر تاکید کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترکی کی رائے عامہ کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہوگئی ہے کہ کیا ان کے ملک میں امن قائم ہو سکے گا؟ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ مشرق وسطی کے خطے سے باہر کی بعض طاقتیں اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے اس اسٹریٹیجک اور جیو اکنامک خطے پر تسلط جمانے کے درپے ہیں۔

ٹیگس