افغاں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ
افغانستان میں امن و امان کی بری صورتحال کے پیش نظر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغاں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے کے معاون مارک بوڈن نے کہا ہے کہ اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ رواں برس کے آخر تک افغاں پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید دو لاکھ افراد کا اضافہ ہوجائے گا۔
مارک بوڈن نے گذشتہ برس جنوری سے ستمبر تک کی مدت میں افغانستان میں تقریبا آٹھ ہزار تین سو چھیالیس افراد مارے گئے ہیں اور اس دوران مارے جانے والوں میں بیشتر تعداد عام شہریوں کی ہے۔
ایسے عالم میں جبکہ افغان عوام کو یہ توقع تھی کہ دوہزار ایک میں طالبان حکومت کے خاتمے اور قومی حکومت و پارلیمنٹ کے قیام کے بعد ان کے ملک میں امن و امان قائم ہوجائے گا لیکن افغانستان میں بدستور بدامنی اور بحران جاری رہا جس کی وجہ سے افغانستان کے مختلف صوبوں سے پناہ گزینوں اور آوارہ وطن ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں جھڑپوں میں شدت آنے سے اقتصادی بحران بدستور جاری ہے اور بعض علاقوں اور شہروں پر بار بار فوج اور طالبان کا قبضہ ہونے اور زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کی وجہ سے بھی افغان عوام کی مہاجرت اور پناہ گزینی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار دل دہلادینے والے ہیں۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں افغاں عوام کی مہاجرت اور ان کی آوارہ وطنی بہرحال علاقے اور عالمی سطح پر ایک اہم چیلنج شمار کی جاتی ہے کیونکہ اس وقت یورپی ملکوں اور افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو بے تحاشہ مہاجرت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے اور یہ امر ان ملکوں کےلئے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔
اسی بنا پر مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے عوام کی مہاجرت اور پناہ گزینی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جسے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے سادگی سے نظر انداز کرسکیں۔
اس وقت پاکستان یہ کوشش کررہا ہے کہ افغاں پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیج دے اور جرمنی سمیت یورپی ممالک نے بھی کچھ اسی طرح کے فیصلے کئے ہیں۔ ان امور کے پیش نظرسیاسی مبصرین اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ افغانستان میں پائدار امن کے قیام اور اسکی معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات سے افغانستان سے دیگر ملکوں میں پناہ لینے کے عمل میں کمی آسکتی ہے اور یہ امور افغان پناہ گزینوں کو وطن واپسی کی ترغیب دلاسکتے ہیں۔
واضح رہے چونکہ افغانستان کی حکومت اپنے ملک میں امن قائم کرنے اور اقتصادی مسائل حل کرنے میں ناتوان ہے لھذا ان میدانوں میں علاقائی ملکوں اور عالمی برادری سے مدد لینا ناگزیر ہے اسی وجہ سے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے عوام کی نامناسب صورتحال کے بارے میں محض رپورٹیں نشر کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی بنیادوں پر افغانستان میں عوام کے مسائل حل کرنے منجملہ سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے معاون نے بھی کہا ہےکہ افغانستان کی معاشی صورتحال علاقائی اور دیگر ملکوں کی مدد کے بغیر نہیں سدھر سکتی لیکن حکومت افغانستان کو مختلف ملکوں کے تعاون کے طریقوں پر شکوہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بعض علاقائی اور دیگر ممالک جو طالبان پر اثر ورسوخ رکھتے ہیں وہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے سے گریز کررہے ہیں۔