Dec ۲۷, ۲۰۱۵ ۱۶:۵۹ Asia/Tehran
  • داعش کے خلاف مہم کے لئے ترکی کے صدر کی شرط
    داعش کے خلاف مہم کے لئے ترکی کے صدر کی شرط

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے داعش کے خلاف مہم میں ایران و روس کے ساتھ مشروط تعاون کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ جب تک شام میں بشار اسد اقتدار میں ہیں ترکی، داعش کے خلاف مہم میں ایران، عراق، شام اور روس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرسکتا۔

اردوغان نے داعش کے خلاف مہم کو ایسی حالت میں مشروط قرار دیا ہے کہ بحران شام کے علاقائی و بین الاقوامی فریقوں نے اٹھارہ دسمبر کے نیویارک اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ بحران شام کا واحد حل، شامی فریقوں کے درمیان مذاکرات ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد بائیس چوّن کی منظوری بھی نیویارک مذاکرات کا ہی نتیجہ ہے اور اس قرارداد میں بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے مگر یہ کہ جنیوا میں امن مذاکرات کی فضا سازگار ہوجائے اور شام میں فائربندی کے نفاذ کے بعد پرامن ماحول میں شامی عوام کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر ہوجائے اور وہ پھر اپنے ملک کے مستقبل اور بشار اسد کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکیں۔

سلامتی کونسل میں قرارداد بائیس چوّن کی منظوری سے، اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دہشت گردوں اور حکومت شام کے حقیقی مخالفین کے درمیان پائے جانے والے فرق کے بارے میں بعض اختلافات کے باوجود کسی حد تک متفقہ طور پر یکسوئی پائی جاتی ہے تاکہ شام کے پانچ سالہ بحران کا خاتمہ کیا جاسکے۔ بحران شام کے حل کے لئے مشترکہ عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس ملک سے دہشت گردی، خاص طور سے داعش کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اشّد ضرورت ہے۔ اسی دائرے میں روس، ایران، عراق اور شام، مشترکہ راستے میں قدم آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد، بحران شام کے حل کی بنیاد کے طور پر دہشت گردی اور عالمی سطح پر اس کے پھیلاؤ کے خطرے کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔

موجودہ صورت حال میں بشار اسد کا مستقبل، اس وقت مغرب کا اہم مسئلہ نہیں ہے اور سلامتی کونسل میں قرارداد نمبر بائیس چوّن کی منظوری سے بحران شام کے سیاسی حل کو علاقائی و عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں پہلی ترجیج حاصل ہے۔ اس رو سے ترکی کے صدر کا موقف، بحران شام کے سیاسی حل کے لئے مشترکہ عزم و ارادے کے بالکل منافی ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رجب طیب اردوغان، کہ بعض مصدقہ رپورٹوں کے مطابق جن کی حکومت اور داعش کے درمیان پیچیدہ اور تہ در تہ رابطے ہیں، شام میں اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی اور رائے عامہ کے دباؤ کی بناء پر اس وقت سخت تلملائے ہوئے ہیں اور وہ مکمل جذباتی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

ترکی کی موجودہ حکومت کو اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کی بناء پر اندرون ملک اور علاقائی و عالمی سطح پر کڑی تنقیدوں کا سامنا ہے اور وہ اس ماحول سے باہر نکلنے کے لئے، غیر سنجیدہ اور جذباتی اقدامات عمل میں لا رہی ہے۔

شام کے سلسلے میں حکومت ترکی کی پالیسی، بنیادی طور پر اس ملک کو دہشت گردی کے خلاف مہم کے راستے پر گامزن نہیں کرسکتی۔ چنانچہ داعش اور ترکی کے باہم پیوستہ اقدامات کو جدا کرنے کے لئے ترک حکومت کی جانب سے منطقی تجزیے کے فقدان سے، داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم میں اس ملک کی جانب سے کسی بھی طرح کی کوئی شرط عائد کئے جانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

ٹیگس