داعش گروہ ترکی کا مقصد یا ایک روش
شمالی عراق میں ترک فوجیوں کی جاری موجودگی، ان دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات میں بدستور کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
بغداد، ترک فوجیوں کے انخلا پر زور دے رہا ہے جبکہ انقرہ، شمالی عراق میں ترک فوجیوں کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔
عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے بدھ کے روز ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر شمالی عراق سے ترک فوجیوں کو واپس بلائے جانے کا مطالبہ کیا۔ عراق کے وزیر اعظم نے کہا کہ ترکی کے وفد نے اپنے دورہ بغداد میں وعدہ کیا تھا کہ شمالی عراق سے ترک فوجیوں کو واپس بلالیا جائے گا مگر انقرہ نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا۔ عراق کے وزیراعظم نے تاکید کے ساتھ کہا کہ ترکی کو چاہئے کہ عراق کے قومی اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کا احترام کرے۔
عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے بھی بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ عراق کی حکومت، شمالی عراق پر ترک فوجیوں کی جارحیت کے مقابلے میں اپنے ملک کا دفاع کرنے پر مجبور ہونے کی صورت میں فوجی اقدام عمل میں لا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں کہ داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف عراقی فوج اور عوامی رضاکار دستوں کی کارروائی جاری ہے، شمالی عراق میں ترک فوجیوں کے داخل ہوجانے سے بغداد اور انقرہ کے سیاسی تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں۔
ترکی نے دسمبر کے شروع میں شمالی عراق میں اپنے تقریبا ڈیڑھ سو فوجی تعینات کردیئے۔ ترکی نے دعوی کیا کہ شمالی عراق میں موصل کے علاقے بعشیقہ کے فوجی اڈے کے قریب، ترک فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد، داعش گروہ کے خلاف مہم اور ترکی کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق کے وزیراعظم حیدرالعبادی کے بقول، ان کے ملک کے علاقے سے ترکی کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ شمالی عراق میں موجود ترک فوجی، داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کر رہے ہیں اس بناء پر موصل میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف کے خلاف کارروائی میں شرکت کے بہانے ترک فوجیوں کی شمالی عراق میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی موصل، ترکی کی سرحدوں سے کافی فاصلے پر واقع ہے، نیز داعش دہشت گرد گروہ سے ترکی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بعشیقہ کا فوجی اڈہ، ترکی کی سرحد سے تقریبا نوّے کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ داعش دہشت گرد گروہ، ترکی کی سرحدوں سے ملنے والے شامی علاقوں میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہے مگر وہاں، ترک حکام کو اپنے ملک کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ترک حکام، بحران شام کے حل کے پیش خیمہ کی حیثیت سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے علاقائی و بین الاقوامی کوششوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اس رو سے ایران اور روس کے ساتھ ترکی کے تعاون کے لئے شام کے اقتدار سے بشار اسد کی علیحدگی سے متعلق انقرہ کی شرط کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
عراق و شام میں داعش دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے بارے میں ترکی کا نقطۂ نظر، اس گروہ کو خطرہ سمجھنے پر مبنی نہیں ہے اور انقرہ کا رویہ، اور ترکی کی کارکردگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ، ترکی کے اس رویے کی بناء پر ہی، بآسانی اپنے مقاصد کے لئے کوشاں ہے۔
چنانچہ عراق و شام میں داعش دہشت گرد گروہ کی موجودگی، ترک حکام کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اپنے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کا، صرف ایک ذریعہ ہے۔ شام میں ترکی کا مقصد، اس ملک میں بشار اسد کی قانونی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے اور اسی مقصد کے تناظر میں داعش دہشت گرد گروہ کے بارے میں ترکی کے نقطۂ نظر کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے۔
ترکی کی جانب سے داعش کے خلاف مہم کے عنوان سے عراق کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی، اس بناء پر نہیں ہے کہ انقرہ کی حکومت، داعش کو اپنے ملک کے لئے کوئی خطرہ سمجھتی ہے اس لئے کہ بنیادی طور پر عراق کے جن علاقوں میں داعش دہشت گرد موجود ہیں وہ ترکی کی سرحدوں سے کئی کلو میٹر کے فاصلوں پر ہیں، جس کی رو سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی کو فوری طور پر کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے عراق میں داعش دہشت گرد گروہ کو موصل میں اپنی فوجی موجودگی کا صرف بہانہ بنایا ہے اور ترکی کے اس نقطۂ نظر کو مجموعی طور پر امریکی رویے میں پرکھا کیا جاسکتا ہے جو نہ صرف قومی اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے خلاف ہے بلکہ وہ، متحدہ عراق کے بھی ہرگز حق میں نہیں ہے۔