یورپی یونین زوال کے دہانے پر
یورپ میں تارکین وطن کا بحران ایسی حالت میں جاری ہے کہ جب اس یونین کے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے باعث یہ یونین ماضی کی نسبت اب زیادہ زوال کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یورپی یونین کے بعض حکام نے اپنی پالیسیوں خصوصا تارکین وطن سے متعلق اپنی پالیسی کی تیاری میں بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اختلافات میں شدت پیدا ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب گزشتہ دن سوئٹزرلینڈ کے ایک فوجی کمانڈر نے بھی یورپ کے موجودہ حالات کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
سوئٹزر لینڈ کے فوجی کمانڈر جنرل آندرے بلتمان نے مشرق وسطی کے جنگ زدہ ملکوں اور براعظم افریقہ سے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یورپ زوال کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تارکین وطن کا یورپی ممالک میں داخلہ اور یورپی معاشرے میں ان کے ضم ہونے سے ناخوش آئند واقعات رونما ہوں گے اور ان ملکوں میں کشیدگی اور جھڑپیں رونما ہوں گی۔
جنگ زدہ ملکوں سے یورپ جانے والے تارکین وطن یورپی ممالک کے لئے ایک چیلنج شمار ہوتے ہیں۔ یہ انتباہات ایسی حالت میں دیئے جا رہے ہیں کہ جب یورو اسٹاٹ کے اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سنہ دو ہزار پندرہ عیسوی کے پہلے نو ماہ کے دوران آٹھ لاکھ بارہ ہزار سے زیادہ افراد نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب یورپی ممالک تارکین وطن کو پناہ دینے کے لئے ہر روز سخت سے سخت قوانین وضع کر رہے ہیں۔ شدید سردی، سرحدوں پر اور بعض کیمپوں میں رہائش کی ابتر صورتحال کے باعث بھی تارکین وطن کی زندگی روزانہ مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
یورپی ممالک کے درمیان اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ کونسا ملک کتنے تارکین وطن کو پناہ دے اور دوسری طرف یورپ اور تارکین وطن میں مذہبی اور ثقافتی اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہی دو چیزیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے متنازعہ مسائل میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط مینیجمنٹ خصوصا تارکین وطن کے بحران سے متعلق غلط مینیجمنٹ یورپ کے سیاسی ڈھانچے میں ایک بڑا بحران پیدا کر سکتی ہے اور اس سے سماجی ناہمواریاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے ممالک کو اقتصادی کساد بازاری، بے روزگاری، عوامی احتجاجات اور شدید اختلاف رائے کا سامنا ہے اور ان ممالک کو ایک طرف تارکین وطن کے امنڈتے ہوئے سیلاب اور دوسری جانب ان ممالک میں دہشت گردوں کی واپسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدامنی کی وجہ سے ایسے حالات کا سامنا ہے کہ جن سے نجات حاصل کرنا ان کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔
یورپی یونین کے بانیوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس یونین کے رکن ممالک اور دنیا کو امن کا تحفہ دیں گے لیکن اب ان یونین کے نعروں اور پالیسیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کے باعث یہ ممالک اپنی امنگوں سے بھی اور ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔
یورپی کمیشن کے سابق سربراہ گونٹر فرہویگن نے کچھ عرصہ قبل کہا تھاکہ یورپ کی شکست کو ایسا دھماکہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس کے نتیجے میں سب کچھ نابود ہوجائے گا بلکہ یہ اقتصادی اور سیاسی شکست کا ایک طویل اور المناک سلسلہ ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ میں اقتصادی، سیاسی، سماجی، اور سیکورٹی کی خلیج ایسی حالت میں گہری ہوتی جا رہی ہے کہ جب دنیا کے بہت سے ممالک خصوصا مشرق وسطی کے ملکوں کے داخلی امور میں ان ملکوں خصوصا امریکہ کی مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اگرچہ سنہ دو ہزار پندرہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے لیکن تارکین وطن کا بحران ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ اور چونکہ اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش نہیں کیا گیا ہے اور اس بحران کے اسباب بھی ختم نہیں ہوئےہیں اس لئے یہ بحران رواں سال میں بھی جاری رہے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال اور یورپی سیاست دانوں سے عوام کی ناراضگی کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں یورپی ممالک کی اقتصادی اور سیاسی خلیج مزید گہری ہو جائے گی جو یورو زون اور اس سے آگے بڑھ کر یورپی یونین کے زوال پر منتج ہوگی۔