افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات
افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے منگل کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی نے افغانستان میں افغان قوموں میں اتحاد کو اس ملک کی مشکلات کا حل قرار دیا۔
آپ نے ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون اور بے پناہ توانائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران افغانستان کی سیکورٹی اور امن و ترقی کو اپنی پیشرفت اور سکیورٹی سمجھتا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے افغانستان میں قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دیئےجانے کو سراہتے ہوئے افغانستان کے مسائل کے حل کے سلسلے میں امید کا اظہار کیا کہ انشاء اللہ قومی اتحاد کی حکومت اپنی حقیقی اور واقعی شکل میں ظاہر ہوگی کیونکہ افغانستان کی مشکلات کاحل افغانستان کی اقوام اور حکام کے درمیاں حقیقی اتحاد قائم ہونے میں مضمر ہے۔
بلاشبہ امن و امان برقرار رکھنے میں اتحاد سب سے اہم عنصر ہے اور امن و امان ترقی کی پہلی شرط ہے۔افغانستان درحقیقت عرصہ دراز سے ان دو کلیدی عناصر سے محروم رہا ہے اور اس محرومیت کے دو اسباب ہیں یعنی سیاسی اور جہادی شخصیتوں کو ملک کے ا من و امان کو تقویت پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کرنے سے دور رکھنا۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظی خامنہ ای نے اسی تاریخی حقیقت پر تاکید کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں مجاہدیں کو کنارے لگانے کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ نے فرمایا کہ جنگی لیڈروں جیسے عناوین استعمال کرکے مجاہدین کو کنارے لگانا غلط پالیسی ہے اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں وسیع پیمانے پر جارحیت اور فتنوں کی آماجگاہ ہے وہاں خود عوام کو اپنے ملک کے دفاع کے لئے جہادی جذبات سے آمادہ ہوجانا چاہیے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اپنے دفاع کی توانائی سے عاجز ہونا دوسروں کی مداخلت کی زمیں ہموار کرتا ہے اور ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ امریکیوں نے افغانستان میں کس قدر انسانوں کا قتل عام کیا اور نقصان پہنچایا ہے اور ہنوز اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
دوسرا سبب وہ بااثر گروہ ہے جو افغانستان کے حالات پر کافی اثر انداز ہوتا ہے اور یہ افغانستان میں بیرونی ملکوں کے سامراجی کردار سے عبارت ہے۔ افغانستان میں متعدد قومیں بستی ہیں اگر ان قوموں میں اتحاد ہوجائے تو یہ افغانستان کے لئے ایک عظیم توانائی یعنی نرم طاقت میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ برطانیہ، سابق سوویت یونین اور حالیہ برسوں میں امریکہ کی جارحیت اور قبضے کے خلاف افغان قوم کی استقامت جس کی طرف رہبرانقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا ہے، تاریخی حقیقت ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہےکہ افغان عوام میں استقامت اور دینداری کے جذبات جاگ اٹھے ہیں اور رہبرانقلاب اسلامی کے الفاظ میں یہ جذبات نہایت گہرے اور تاریخ میں معروف ہیں جن کے مقابل افغانستان پر جارحیت کرنے والی کوئی طاقت نہیں ٹہر سکی ہے۔
البتہ جیسا کہ سامراجی طاقتوں کا وطیرہ ہے سامراجی طاقتیں بدستور تنوع اقوام سے علاقے میں اپنے اثرو رسوخ اور رخنہ اندازی کے لئے غلط فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں بے سود تنازعات پیش آ رہے ہیں اور علاقائی ملکوں منجملہ افغانستان کی توانائیاں ضایع ہورہی ہیں۔ اسی بنا پر رہبرانقلاب اسلامی نے افغانستان کے چیف ایگزیکیٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقاات میں اپنے بیانات کے ایک حصے میں افغانستان میں شیعہ اوراھل سنت نیز دیگر اقوام کی پرامن اور مفاہمت آمیز زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بھی گوشزد فرمائی کہ ہم قدیم زمانے سے افغاں عوام کو صابر، قناعت پسند، سخت کوش، دیندار اور ادبی ذوق کا حامل سمجھتے آئے ہیں لیکن قومی اختلافات اور تفرقہ ہر قوم کو ضعیف کردیتا ہے۔ آپ نے ایران کی جانب سے افغان قوم کی حمایت منجملہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے افغانستان پر سابق سوویت یونین کے جارحیت کی عدیم المثال مخالفت نیز افغان مجاہدین کی حمایت کی طرف جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی تقریبا تیس لاکھ افغاں شہریوں کی میزبانی کررہا ہے۔
بے شک ایران اور افغانستان تہذیبی، لسانی اور دینی اشتراکات کے حامل ہیں جو باہمی تعلقات کا انفرا اسٹرکچر ثابت ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم اقدامات کرنے کےلئے باہمی تعاون کے عزم کا ہونا ضروری ہے البتہ ان ملکوں کے حکام کے ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرنے اور مختلف شعبوں میں معاہدے کرنے سے باہمی تعاون کی زمین ہموار ہو چکی ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات افغانستان کے بہتر مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے آپ نے فرمایا ہے کہ ایران میں افغانستان کے سولہ ہزار طلباء اور فارغ التحصیل طلباء موجود ہیں جو افغانستان کے لئے نہایت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکومت افغانستان کو چاہیے کہ ان طلباء کو مراعات دے کر اپنے ملک واپس آنے اور خدمت کرنے کا موقع دے۔ اس نقطہ نظر سے ایران اور افغانستان، علمی سائنسی، تکنیکی اور اقتصادی شعبوں میں ایران کی بے پناہ توانائیوں اور وسائل و ذرایع نیز افغانستان کے قدرتی ذخائر اور افرادی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے باہمی تعاون کو توسیع دے سکتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا اور اسی کے ساتھ ساتھ جیسا کہ رہبرانقلاب اسلامی نے بیان فرمایا ہے کہ دونوں ملکوں کو بھائی چارے اور تعاون سے بعض اختلافات جیسے سرحدی پانی کے مسائل کو حل کر لینا چاہیے۔