عرب لیگ کے بیان پر ایران کا سخت رد عمل
سفارتی تعلقات منقطع کرکے آل سعود رائے عامہ کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے
اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی عرب کے ہاتھوں انسانی حقوق اورعالمی قوانین کی بھرپور پامالی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا ریاض کا ھدف علاقے میں آل سعود کے انسانیت سوز اور غیر قانونی اقدامات سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان صادق حسین جابری انصاری نے ایران میں سعودی عرب کے سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملوں کی مذمت میں عرب لیگ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کو پامال کرنے کے سلسلے میں سعودی عرب نہایت سیاہ کارناموں کا حامل ہے اور ریاض ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے انسانی حقوق کے سلسلے میں اپنے اوپر پڑنے والے عالمی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ایران کے ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ ایرانی حکومت سعودی عرب کے سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملہ کرنے والے خودسرعناصر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کی سنجیدہ کوشش کررہی ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب ایران کی نیک نیتی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملے کو خوب اچھال رہا ہے اور اس طرح گذشتہ ہفتے بزرگ و مجاہد عالم دین آیت اللہ شیخ باقرالنمر کو شہید کرنے جیسے انسانیت سوز اقدام نیز یمن پر اپنے وحشیانہ حملوں سے رائے عامہ کو منحرف کرنا چاہتا ہے۔
واضح رہے عرب لیگ نے اتوار کو اپنی نشست میں جو قاہرہ میں سعودی عرب کی درخواست پر منعقد ہوئی تھی ایک بیان میں ایران میں سعودی عرب کے سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملوں کی مذمت کی ہے اور یہ الزام لگایا ہے کہ تہران بعض عرب ملکوں کے امور میں مداخلت کررہا ہے۔ عرب لیگ نے ایک بار پھر خلیج فارس میں ایران کے تین جزیروں کے بارے میں دعوے دوہرائے ہیں اور ان الزامات کی بھی تکرار کی ہے کہ ایران بعض عرب ملکوں میں مداخلت کررہا ہے۔
عرب لیگ کی جانب سے علاقے میں سعودی عرب کی مخاصمانہ کارروائیوں کی حمایت اور عرب ملکوں میں ایران کی مداخلت کا الزام ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ اس وقت ہزاروں سعودی فوجی عوامی تحریک کو کچلنے کی غرض سے آل خلیفہ کی مدد کرنے کے ھدف کے تحت بحرین میں موجود ہیں اس کےعلاوہ سعودی عرب اور اسکے اتحادی دس مہینوں سے زیادہ عرصے سے یمن کے بے گناہ اور نہتے عوام کو حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں تا کہ یمن کے سابق اور مفرور صدر کو دوبارہ اقتدار میں لایا جاسکے۔ واضح رہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمن پر سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کے وحشیانہ حملوں میں کم از کم سات ہزار پانچ سو افراد شھید اور پندرہ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
عرب لیگ نے ایسے حالات میں سفارتی دفاتر پر حملوں کے بہانے فورا ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کی سعودی عرب کی درخواست مان لی کہ جب اس نے شام، یمن اور عراق میں جاری خونریز بحرانوں کو روکنے کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا۔
اسی بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران کا کہنا ہے کہ علاقےبالخصوص یمن میں سعودی عرب کی مہم جوئی، عرب لیگ میں اپنے مواقف کی حمایت کے لئے سیاسی لشکر کشی، اور مجاہد عالم دین آیت اللہ نمر کو شہید کرنا یہ سارے اقدامات علاقے میں سعودی عرب کی فتنہ انگیزی شمار ہوتی ہے جس کے پیش نظرعرب لیگ جیسے اداروں کو سعودی عرب کے اھداف کو آگے بڑھانے والے اداروں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اس نقطہ نظر کے مطابق عرب لیگ کو سعودی عرب کے مخاصمانہ اقدامات کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن چونکہ آل سعود اثر ورسوخ کی حامل ہے اور عرب لیگ کے کچھ رکن ممالک اسکی مالی امداد سے وابستہ ہیں لہذا عرب لیگ عملی طور سے سعودی عرب کی مجرمانہ کارروائیوں اور توسیع پسندی کو آگے بڑھانے کے لاجسٹیک مرکز میں تبدیل ہوچکی ہے۔