عرب ممالک میں سرگرم سیاسی شخصیتوں کے خلاف دباؤ میں اضافہ
ایسے عالم میں جب عرب ممالک میں آزادی بیان اور انسانی حقوق کی پامالی پر بین الاقوامی اداروں کی تنقید کا سلسلہ جاری ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کویت میں انٹرنیٹ جرائم کے حوالے سے نئے قانون کو اس ملک میں آزادی بیان کے منافی قرار دیا ہے-
کویت میں انٹرنیٹ جرائم سے متعلق قانون پرعمل درآمد کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے منگل کو اپنے ایک بیان میں پیش گوئی کی ہے کہ اس قانون پرعمل درآمد سے کویت میں آل صباح حکومت کی پالیسیوں کے مخالف سیاسی کارکنوں ، صحافیوں اور عوام کی سرکوبی بڑھے گی-
اس بیان کے مطابق انٹرنیٹ جرائم سے متعلق قانون کے ساتھ ہی کویت میں بہت سے قوانین ، آزادی بیان کی راہ میں رکاوٹ ہیں کہ جن پر نظرثانی ہونی چاہئے کیونکہ ان قوانین کی بنیاد پر جو لوگ حکومت کے اعلی حکام بالخصوص امیر کویت پر تنقید کریں گے انھیں سخت سزا دی جائے گی-
دو سال قبل بھی آل سعود حکومت نے اسی طرح کا ایک قانون منظور کر کے سعودی عرب میں بہت سی سرگرم سیاسی شخصیتوں کو دہشت گردانہ اقدامات اور حکومت مخالف کوششوں کے بہانے، گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا اور بعض کو سزائے موت دی - انسانی حقوق کی حامی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کویت ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت خلیج فارس تعاون کونسل کے سیکڑوں عرب شہریوں کو سوشل میڈیا میں حکومت مخالف بیانات کے الزام میں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے- گرفتار ہونے والوں پر عائد اکثر الزامات کا تعلق عرب حکمرانوں کی توہین سے ہے-
اس تناظر میں ابھی کچھ دنوں پہلے سعودی عرب کے اہم مذہبی پیشوا آیت اللہ نمر باقر النمر سمیت علاقے کی بعض سیاسی و مذہبی شخصیتوں کو آل سعود کے خلاف رائے عامہ کو اکسانے اور دسیوں دیگر افراد کو دہشت گردانہ اور حکومت مخالف سرگرمیوں کے بہانے سزائے موت دے دی گئی- یہ ایک ایسا اقدام تھا جس پر آل سعود حکومت کی انسان دشمن پالسیوں کی مخالفت میں دنیا کے مختلف علاقوں میں بین الاقوامی ردعمل سامنے آیا-
درحقیقت گذشتہ پانچ برسوں میں علاقے بالخصوص سعودی عرب اور بحرین میں حکومت مخالف احتجاج شروع ہونے کے بعد یہ ممالک دہشت گردی کے خلاف بظاہر سخت قوانین بنا کر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بہانے، سیاسی شخصیتوں کو گرفتار اور ان پر مقدمہ چلا کر حقوق کے حصول اور علاقے میں آمرانہ نظام کی اصلاحات کے لئے جاری تحریکوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں-
اس بیچ اکثرعرب ممالک میں آزادی بیان ، سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی کی جانب سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے ان ممالک کا ایک حربہ ایرانوفوبیا کی پالیسی کا سہارا لینا اور بیرونی عناصر کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے لیکن تجربے نے ثابت کر دیا ہے کہ حریت پسندوں کی رائے عامہ ، انسانی حقوق کی حامی تنظیمیں اور ادارے ان پروپیگنڈوں کے دھوکے میں نہیں آئیں گے –