دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لئے اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کے اہم کردار کی ضرورت
ایران کی پالیمنٹ، مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کا اجلاس، عالم اسلام کے مسائل و مشکلات اور ان کے حل کا جائزہ لینے کا ایک بہترین موقع ہے۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے اتوار کے روز عراق کے دارالحکومت بغداد میں اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کے گیارہویں سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی ملکوں کے درمیان اخوّت و یکجہتی کو مضبوط و مستحکم بنانے اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لئے موثر اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کے قیام کا مقصد، مختلف مسائل میں اسلامی ملکوں کے درمیان یکجہتی کو مستحکم بنانا قرار دیا اور کہا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت، علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے لئے ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ دہشت گردی، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بعض علاقائی و غیر علاقائی ملکوں کے حکام کی غیر ذمہ دارانہ اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس سے عالم اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کا گیارہواں سربراہی اجلاس، پیر کے روز تک جاری رہے گا۔ اس اجلاس میں دہشت گردی، فلسطین، عراق، شام اور یمن کے مسائل کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
موجودہ صورت حال میں اس اجلاس کا انعقاد، خاص اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ عراق، اس وقت ایسی حالت سے گذر رہا ہے کہ اسے دہشت گردی جیسے مسئلے کا سامنا ہے۔ بغداد اجلاس، اس بات کا ایک بہترین موقع ہے کہ ہم آہنگی اور اجتماعی عقلانیت سے عالم اسلام کا جائزہ اور ان کی عملی راہ حل پیش کی جائیں۔ اسلامی ملکوں کو اس وقت دہشت گردی، حقیقی اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کئے جانے اور علاقے کے آزاد ملکوں کو تقسیم کئے جانے کی سازشوں کا سامنا ہے۔ اسلامی ممالک، اپنے مسائل کے حل کے لئے اچھی علاقائی توانائی کے حامل ہیں مگر اسلامی ملکوں کے درمیان یکسوئی کے فقدان نے علاقائی اسلامی تنظیموں کو ناکامی سے دوچار کردیا ہے۔ اسلامی ملکوں کے درمیان تعاون کے وسیع ذرائع پائے جانے کے باجود محاذ آرائی، عالم اسلام پر پہلی بڑی ضرب ہے۔ دشمن، اسلامی ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوری سے غلط فائدہ اٹھا کر تفرقہ پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے اور وہ اس طریقے سے اپنے مفادات کی تلاش میں ہے۔ داعش، طالبان اور جبہۃ النصرہ جیسے انتہا پسند گروہوں کا قیام، جو کسی نہ کسی اسلامی ملک میں اپنا وجود ظاہر کر رہے ہیں، اسلامی ملکوں کے درمیان اختلاف پیدا کئے جانے کی کوشش کو نمایاں کرتا ہے۔
علاقے کے مختلف مسائل میں اسلامی ملکوں کے نقطۂ نظر اور پالیسیوں میں اختلاف، اسلامی تنظیموں منجملہ اسلامی تعاون تنظیم اور اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کے کمزور ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ جبکہ ان تنظیموں کے قیام کا مقصد، ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور مسائل و مشکلات کا مل کر حل تلاش کرنا ہے۔ اور جب تک بعض ملکوں کی جانب سے اسلام دشمن طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے کسی ایک اسلامی ملک پر دباؤ بڑھانے کا رویہ جاری ہے، عالم اسلام کے کمزور پڑنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس سے اسلامی ملکوں کے اتحاد کو بھی کوئی مدد نہیں ملے گی۔
یمن میں سعودی عرب کے جاری جرائم کے سلسلے میں او آئی سی کا تماشائی بنا رہنا اور عراق و شام میں دہشت گردی کے مقابلے میں اس کا دفاعی رویہ، اسلامی ملکوں کے درمیان فتنہ و فساد اور دشمنی کو مزید بڑھائے جانے کے مترادف ہے جبکہ اس فتنے کے نتیجے میں ہی یمن میں گذشتہ دس مہینوں سے بےگناہ افراد منجملہ عورتوں اور بچوں کا قتل عام جاری ہے اور شام و عراق میں بھی اسلام کے نام پر مختلف دہشت گرد گروہوں کے قیام کے ذریعے تقسیم کی سازش کو عملی جامہ پہنائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چنانچہ عالم اسلام کے حقائق کے پیش نظر بغداد میں منعقدہ اسلامی ملکوں کی پارلیمانی یونین کے سربراہی اجلاس سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ علاقے کی موجودہ صورت حال کو درک کرتے ہوئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کئے جانے کی عملی راہ حل، پیش کرے گا اور دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کی مشترکہ جنگ میں ان کی تقویت کا سبب بنے گا۔