Jan ۳۱, ۲۰۱۶ ۱۸:۰۴ Asia/Tehran
  • ایران اور یورپی ممالک کے باہمی تعاون کے بارے میں ڈاکٹر حسن روحانی کا زاویۂ نگاہ

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے فرانس کے ٹی وی چینل فرانس ٹونٹی فور ، ریڈیو فرانس کولٹور اور اخبار لومونڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے دورہ اٹلی اور فرانس کے ایران، فرانس اور اٹلی کی اقوام کے لئے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور خطے میں قیام امن و استحکام کے سلسلے میں بھی مدد ملے گی۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے یہ انٹرویو پیرس میں دیا اور اس انٹرویو کا مکمل متن کل ہفتے کے دن شائع کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اس انٹرویو میں اٹلی اور فرانس کے ساتھ ایران کے تعلقات کے مستقبل، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں ایران کے مواقف کی وضاحت کی۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اس انٹرویو میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بعد اب ایران علاقائی مسائل کے بارے میں مذاکرات کے میدان میں داخل ہوچکا ہےکہا کہ یہ حالات سابقہ برسوں میں نہیں تھے۔ لیکن اب حتی امریکہ بھی اس حقیقت کا معترف ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے سلسلے میں ایران کے موثر کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے اس انٹرویو میں دہشت گردی کو سب کے لئے خطرہ قرار دیا اور اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ خطے میں دہشت گردی سے متعلق مسائل بہت زیادہ خفیہ نہیں ہیں اور کہا کہ ہر ملک کے موقف سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کا حامی کون ہے۔ لیکن خطے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب کو آپس میں تعاون کرنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کو خطے سے نکال باہر کریں اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں اور بے گھر افراد کو ان کے گھروں میں واپس لوٹائیں۔ بنابریں اس مسئلے کو سمجھنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ خطے میں کسی ایک ملک میں بدامنی پھیلنے کی صورت میں یہ بدامنی دوسرے ممالک کے لئے بھی خطرہ شمار ہوتی ہے۔

واضح سی بات ہے کہ انتہا پسند دہشت گردوں اور اعتدال پسند دہشت گردوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سب ممالک کو کسی طرح کے استثنا کے بغیر دہشت گردی کو ایک بین الاقوامی اور علاقائی خطرہ سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند سے ملاقات کے دوران بھی اٹھایا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ہم مختلف طرح کے باہمی تعاون کر سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ تعاون فوجی ہی ہو۔ دوسرے شعبوں میں بھی ہم آہنگی اور مشاورت کی جا سکتی ہے۔ اس دورے کے بعد دونوں ملکوں کی ہم آہنگی اور مشاورت میں اضافہ ہوگا۔ شام کے مسئلے کے بارے میں بھی ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ شام کے موضوع سے متعلق مذاکرات کے نئے دور کے لئے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں اور ایران بھی جنیوا اجلاس میں شریک ہے۔

ایران اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مذاکرات جلد از جلد نیتجہ خیز ثابت ہوں اگرچہ ان مذاکرات کا بہت قلیل مدت میں نتیجہ خیز ہونا بعید نظر آتا ہے کیونکہ شام میں مداختلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور دہشت گردوں کے لئے مختلف طرح کے ہتھیار بھیجے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسن روحانی کا موقف ہے کہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ بہت جلد کوئی حل تلاش کر لیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مقابلے کو ترجیح حاصل ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے ان مواقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایران کبھی بھی عالمی برادری سے الگ نہیں رہا ہے ۔ وہ نہ تو ایٹمی معاہدے سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد عالمی برادری سے الگ رہا ہے۔

ایران نے سنہ دو ہزار تیرہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا تشدد اور انتہاپسندی سے پاک کی تجویز پیش کی تھی جسے متفقہ طور پر قبول کر لیا گیا۔ اب بھی ایران کی سفارت کاری اسی مدار پر ہے اور ڈاکٹر حسن روحانی کے اٹلی اور فرانس کے دورے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ایران کے پیش نظر صرف اقتصاد نہیں ہے بلکہ وہ دنیا میں خطرات اور دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن و سلامتی کا خواہاں ہے۔ ایران اس مقصد کے حصول کے لئے یورپی ممالک کے ساتھ باہمی تعاون میں توسیع کا خیر مقدم کرتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ باہمی تعاون کے ذریعے مشکلات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

ٹیگس