Feb ۰۱, ۲۰۱۶ ۱۷:۰۹ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں گھٹن کا ماحول

سعودی عرب کی حکومت نے اپنے ملک میں آزادی بیان پر مکمل قدغن لگادی ہے۔

سعودی عرب کی منسٹری آف اسلامک افیرز اینڈ گائڈنس نے مسجدوں میں بغیر اجازت کے ائمہ جماعت کے خطاب اور اجتماعات پر پابندی لگادی ہے۔ سعودی عرب کی اس وزارت نے اس سے قبل بھی ہر طرح کی کانفرنسوں، تقریروں کے جلسوں، جرائد اور تعلیمی کتابچوں نیز اسلامی احکام پر مشتمل رسالوں کے تعلیمی اداروں میں بانٹنے پر پابندی لگادی تھی اور کہا تھا کہ یہ کام نائب وزیر کی اجازت کے بغیر ممنوع ہے۔

سعودی عرب میں شہریوں کے آزادی بیان پر روزافزوں پابندیاں ایسے عالم میں لگائی جارہی ہیں کہ آل سعود کے اعلی حکام تیل کی آمدنی نیز دیگر ذرایع سے ہونے والی آمدنی اور تمام وسائل و ذرایع سے گمراہ فرقے وہابیت اور اپنی حکومت کے حق میں پروپگنڈے کررہے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے وہابی سلفی طرز فکر کی ترویج کے لئے کہ جس کے عقائد کی جڑیں دہشتگردی اور تکفیری اصولوں میں پیوست ہیں بڑے خطیر بجٹ خرچ کئے جارہے ہیں جن کے بارے میں بعض اعداد و شمار بھی سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی سینیٹر کریس مرفی نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کونسل میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب نے ایک سو ارب ڈالر وہابیت کی ترویج کے لئے مختص کئے ہیں۔

سعودی عرب کے حکام کی جانب سے سیاسی و سماجی اور ثقافتی سطح پر گھٹن کا ماحول قائم کرنے اور عوام کے شہری حقوق پامال کرنے کے لئے فیصلے اور تدابیر سے اھل عالم کے سامنے اس حکومت کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آل سعود کی حکومت جو ایک ڈکٹیٹر حکومت ہے اسکی کارکردگی کی بنیاد تشدد آمیز اقدامات پر رکھی گئی ہے اور وہ ہر ڈکٹیٹر حکومت کی طرح اپنے شہریوں کو کچل کر اپنی ظالمانہ حکمرانی جاری رکھنا چاہتی ہے۔ قانونی حلقوں کی جانب سے اعلان شدہ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد تیس ہزار ہے اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت اپنے شہریوں کے خلاف کس قدر وسیع پیمانے پر تشدد آمیز پالیسیوں پر عمل کرتی ہے۔

آل سعود کی جانب سے نہایت ہی وسیع پیمانے پر شہری حقوق کو نظر انداز کرنا اور ملک کا انتظام چلانے میں جمہوری قواعد کی شدید مخالفت اس بات کا سبب بنی ہے کہ سعودی عرب کو سیاسی اور سماجی لحاظ سے ایک پسماندہ دقیانوس اور قدامت پسند ملک سمجھا جائے جو قرون وسطی کے قوانین سے چل رہا ہے۔اس وقت عالمی رائے عامہ سعودی عرب کو اسی نظر سے دیکھتی ہے۔ سعودی عرب میں انتخابات، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کی آزادی جیسی جمہوریت کی علامتیں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ آل سعود کی حکومت کا نظام موروثی ہے اور عوام کو ملک کا انتظام چلانے اور قانون سازی میں شرکت کرنے کا کسی طرح کا کردار نہیں دیا گیا ہے۔

یہ ایسے عالم میں ہے کہ آل سعود ملک کے ذخائر پر مکمل طرح سے مسلط ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کسی بھی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں اس بدعنوان حکومت کے ہاتھوں ملک کے ذخائر کی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری ہے اور اس سے اقتصادی لحاظ سے سعودی عرب کے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کے بے پناہ تیل وگیس کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کے اکثر باشندے مختلف اقتصادی مسائل جیسے اپنا گھر نہ ہونا، غربت اور بے روزگاری میں مبتلا ہیں۔ ان مسائل پر سعودی عرب کے اکثر باشندوں کو اعتراض ہے اور اس سے آل سعود کے خلاف تنقیدوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات کے باوجود سعودی عرب کی حکومت عوام کے احتجاج کو سختی سے کچل دیتی ہے اور ہر طرح کی حریت پسندانہ آواز کو خاموش کردینا چاہتی ہے۔

سعودی عرب کے عوام کے پرامن احتجاج کے جاری رہنے اور شہید آیت اللہ باقر النمر کے بیٹے کی جانب سے اس بات پر تاکید کہ سعودی عرب کے عوام کے حقوق کے حصول کی ان کے والد کی پرامن راہ جاری رہے گی آل سعود کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب کے عوام کی تحریک کی جامعیت اور سنجیدہ ہونے کی نشاندھی ہوتی ہے۔ واضح رہے آل سعود نے آیت اللہ شیخ باقر النمر کو اس وجہ سے شہید کر دیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں برابری، آزادی اور اصلاحات پر زور دیتے تھے۔

ٹیگس