Feb ۰۳, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ایران کی خارجہ پالیسی علاقائی امن و خوشحالی کی ضامن

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر مبنی ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کہا ہے کہ ایران علاقائی خصوصا ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے منگل کی رات ٹی وی سے لائیو نشر ہونے والے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ایران کے ساتھ بعض ہمسایہ ممالک کا رویہ اچھی ہمسائگی، بھائی چارے، مسلمان ہونے اور دونوں ممالک کے تاریخی مشترکات کے مطابق نہیں ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اگر کسی دن یہ ممالک خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی پالیسی سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیں تو ایران کی عظیم قوم کے اندر اتنی اعلی ظرفی پائی جاتی ہے کہ وہ ان کو غلطیوں کے ازالے کا موقع فراہم کرے گی۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر بعض ہمسایوں نے کشیدگی پھیلانے پر مبنی اپنے اقدامات جاری رکھے تو اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کام خود ان ممالک کے اپنے نقصان میں جائے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو بھر پور جواب دیا جائے گا کیونکہ یکطرفہ مہربانی ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے، کہ ایران اپنے مفادات پر ضرب لگانے والوں کو دندان شکن جواب دے گا، کہا کہ علاقائی ممالک کو مفادات مد نظر رکھنے چاہئیں کیونکہ ایران خطے کی سپر طاقت بننے کے لئے کوشاں نہیں ہے بلکہ وہ ایک طاقتور اور سربلند خطے کا خواہاں ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران علاقائی طاقت ہے اور اس کی طاقت علاقائی ممالک کے مفادات سے تضاد نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی ان مفادات کے مقابلے میں ہے۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ امن قائم کرنے اور سکون و چین سے ہمکنار کرنے والی ایران کی طاقت کا مقصد علاقے میں قیام امن ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے تمام ممالک کے ساتھ امن و استحکام کے ماحول میں تعاون کرنا چاہتا ہے تاکہ امن کا دائرہ پھیلے اور ممالک خوشحال ہو جائیں۔

بدامنی اور کشیدگی ممالک کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور مقابلے کی پالیسی حتی طاقت کا استعمال خطے کو نابودی کی جانب لے جائے گا۔ شام، یمن اور عراق علاقائی ممالک کے باہمی تعاون کی پالیسی سے دور ہونے کے واضح مصادیق ہیں۔

سعودی عرب سمیت خطے کے بعض ممالک نے، کہ جو ایران کے جنوبی ہمسائے بھی ہیں، علاقے میں کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ شام اور یمن میں سعودی عرب کا تباہ کن کردار ان دو ممالک کے مظلوم عوام کے قتل عام اور ان ممالک میں بدامنی پر منتج ہوا ہے۔ سعودی حکام کے موجودہ اقدامات کا نتیجہ کشیدگی میں اضافہ ہونے اور علاقائی ممالک کے مفادات پر ضرب لگنے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

ایران کے ساتھ سعودی عرب کی مخاصمانہ پالیسی کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔ تہران اور مشہد میں سعودی عرب کے سفارتی مراکز پر مشکوک افراد کے حملے کے بہانے ایران سے تعلقات منقطع کرنے اور کشیدگی پھیلانے پر مبنی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے ایران کے مفادات کو ضرب لگانے کی سعودی عرب کی کوشش اچھی ہمسائگی اور دینی و مذہبی مشترکات جیسے اہم اصولوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

سعودی عرب کے برخلاف ایران خطے میں قیام امن کے عمل کو تقویت پہنچانے کے مقصد سے اپنے جنوبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی ایک بڑی طاقت اور ذمےدار ملک کی حیثیت سے کام کر رہا ہے اور وہ دوسروں خصوصا اپنے ہمسایوں کے مفادات پر ضرب لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ معقول اور تعمیری تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اسی رویے سے خطے میں امن و استحکام کے قیام اور ممالک کی خوشحالی اور ترقی و پیش رفت میں مدد مل سکتی ہے ۔

ٹیگس