Feb ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۹ Asia/Tehran
  • ایرانی وزیر خارجہ لندن کے دورے پر

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہیمنڈ کی دعوت پر لندن کے دورے پر ہیں۔

محمد جواد ظریف شام اور علاقے کی حمایت میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے لندن گئے ہیں۔ آج کی یہ نشست جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہورہی ہے۔ شام کے عوام کی مدد کے لئے مالی امداد جمع کرنا، شام میں پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے طویل مدت پروگرام اور شام کے سات لاکھ پناہ گزیں بچوں کی تعلیم جیسے مسائل پر تبادلہ خیال ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے رواں برس میں شام کے پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے لئےسات بلین سات سو تیس ملین ڈالر کی درخواست کی ہے۔ گذشتہ برس بھی یہ طے پایا تھا کہ شام کے عوام کی مدد کے لئے سات ارب ڈالر کی مدد فراہم کی جائے گی لیکن موصولہ اطلاعات کے مطابق اس رقم کا نصف حصہ ہی فراہم ہوسکا ہے۔

شام کے پناہ گزینوں کے لئے جو امداد مد نظر رکھی گئی ہے وہ قلیل مدت کے لئے ہے جبکہ ان پناہ گزینوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں ان کے ملک واپس بھیجنے میں ممکن ہے کئی برس لگ جائیں۔ اسی بنا پر شامی پناہ گزینوں کی تعلیم اور ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کےلئے منصوبہ بندی کرنا لندن نشست کے اہم ترین موضوعات میں شامل ہیں۔

اس طرح کے اقدامات اور ان کے لئے آمدنی کے ذرایع فراہم کرنا نہایت اہم قدم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم قدم شام کے بحران کو حل کرنے اور شام و عراق کےشہریوں کی نقل مکانی کے سلسلے کو روکنے کی کوششیں کرنا ہے جودہشتگرد گروہوں کے تشدد اور انتہا پسندی کا شکار ہورہے ہیں۔

بعض مغربی طاقتیں اور ان دہشتگرد گروہوں کے حامی یہ کوشش کررہے ہیں کہ شام کی حکومت پر سیاسی اور فوجی دباؤ ڈال کر دمشق کو مخالف گروہوں کے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کریں۔اس وقت شام کی حکومت پر کئی طرف سے دباؤ پڑرہا ہے۔ یہ دباؤ اس وقت سے مزید زیادہ ہوگیا ہے جب سے شام کی فوج کو میدان جنگ میں داعش کے ٹھکانوں پر روس کے فضائی حملوں کی وجہ سے کامیابیاں ملی ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ شام کے پناہ گزینوں کی مشکلات نہایت شدید ہیں اور گذشتہ ایک مہینے میں بعض یورپی ملکوں نے جو سخت گیر قوانین اپنائے ہیں ان مشکلات میں مزید ا‌ضافہ ہوگیا ہے۔ اس درمیان یورپی یونین نے ترکی میں پناہ گزینوں کی مدد کے لئے ایک منصوبہ منظور کیا ہے لیکن ترکی جیسے ممالک نے اس منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی اس راہ میں کوئی قابل توجہ اقدام کیا ہے۔

واضح رہے ترکی اور سعودی عرب داعش کی مسلسل حمایت کررہے ہیں اور اسی حمایت کی وجہ سے شام کے بحران کو حل کرنے کے مذاکرت کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ سعودی عرب عملی طور سے علاقائی تعاون میں کشیدگی اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ترکی بھی اس کشیدگی میں کردار ادا کرکے داعش کے خلاف روس کے موثر کردار کو اپنے بہانوں اور دعووں سے متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اس بنا پر واضح ہے کہ پناہ گزینوں کو ایک مشکل نہیں سمجھناچاہیے کیونکہ ان کے برے حالات بعض ملکوں کے اقدامات کا نتیجہ ہیں جو شام کی حکومت کو گرانے اور علاقے کا بٹوارا کرنا چاہتے ہیں۔

پناہ گزین ہونا پناہ گزینوں کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ ان پر مسلط گیا ہے۔ اس وجہ سے لندن کی نشست کو ان کوششوں کا تسلسل سمجھنا چاہیے کہ جو شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جانب سے شروع کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں کسی فیصلے تک پہنچنا بہت ضروری ہے لیکن ان کوششوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں جنگ اور دہشتگردی کو جلد از جلد ختم کرنے کی بھی سعی جاری رہنی چاہیے۔

ٹیگس