غزہ کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کرنے کے لیے اسرائیل کی تیاریاں
صیہونی حکومت نے علاقے میں اپنی جنگ پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے غزہ پٹی پرایک بار پھر حملہ کرنے کے لیے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے وزیر جنگ موشے یعلون نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پر ایک اور حملہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ صیہونی وزیر جنگ نے یہ دھمکی آمیز بیان جنگی بحری جہاز یو ایس ایس کارنی پر دیا ہے کہ جو حیفا میں امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لے رہا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے حکام کے دھمکی آمیز بیانات میں شدت ایک ایسے وقت میں آ رہی ہے کہ جب صیہونی حکومت امریکہ کے ساتھ فوجی مشقیں انجام دے رہی ہے اور ان دھمکیوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اسے امریکہ کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔
صیہونی حکومت غزہ کے خلاف اپنی دھمکیاں ایک ایسے وقت میں جاری رکھے ہوئے ہے کہ جب دو ہزار آٹھ، دو ہزار بارہ اور دو ہزار چودہ میں غزہ پر وحشیانہ حملوں اور ہزاروں بےگناہ افراد کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کے باوجود اسے اپنے کسی مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صیہونی حکومت کی جنگ شروع کرنے کی دھمکیوں نے کہ جو سازباز مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے اس غاصب حکومت کے چہرے سے امن پسندی کا نقاب ہٹ جانے کے بعد دی جا رہی ہیں، اس حکومت کے حقیقی چہرے کو پہلے سے زیادہ عیاں کر دیا ہے۔
یہ باتیں اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انسانیت مخالف صیہونی حکومت کبھی بھی علاقے میں قیام امن کی خواہاں نہیں رہی ہے۔ بلاشبہ علاقے میں عوامی مزاحمت کے مقابل صیہونی حکومت کی سیاسی و فوجی ناکامیوں نے صیہونی حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور ایسے حالات میں صیہونی حکومت، فوجی اقدامات اور دھمکیوں میں تیزی لا کر اپنے زعم باطل میں ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ صیہونی حکومت اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتی ہے اور وہ ضروری طاقت و توانائی رکھنے کی صورت میں علاقے میں ایک اور جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکانے سے دریغ نہیں کرے گی اور اس ناجائز حکومت کے قیام کی ابتدا سے ہی فلسطینی عوام اور علاقے کی دیگر اقوام کے خلاف اس حکومت کی جانب سے کئی جنگوں کا آغاز اس حقیقت کا گواہ ہے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب بعض سیاسی مبصرین نے بھی غاصب صیہونی حکومت کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کو اس حکومت کی لفاظی اور صیہونیوں کی نفسیاتی جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ ان مبصرین کا یہ خیال ہے کہ صیہونی حکومت ایک طرف تو خوف و دہشت کی فضا پیدا کر کے فلسطینیوں کو سازباز مذاکرات کے نئے دور کی طرف دھکیلنے کے ذریعے بعض مراعات حاصل کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف حالات کو خراب کر کے فلسطینیوں کی قومی آشتی کے عمل میں کہ جو اس حکومت کے مقابل فلسطینیوں کے موقف میں مضبوطی کا باعث بنے گی، رکاوٹیں ڈالنے کے درپے ہے۔ اس تناظر میں صیہونی حکومت کی فوجی دھمکیاں اور اقدامات زیادہ تر اس کے داخلی حالات کا نتیجہ ہیں۔
بلاشبہ اقتصادی مشکلات میں اضافہ اور گزشتہ مہینوں کے دوران سیاسی تنازعات اور اجتماعی اعتراضات میں اضافے کی وجہ سے صیہونی حکومت مختلف طریقوں سے رائے عامہ کی توجہ اس حکومت کے داخلی حالات سے ہٹانا چاہتی ہے۔ لیکن چونکہ صیہونی حکومت کے اقدامات عقل و منطق سے عاری ہیں اور صیہونی حکام علاقے کے عوام کی مزاحمت اور استقامت کے مقابل اپنی ناکامیوں پر پیچ و تاب کھا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس امکان کو تقویت ملی ہے کہ اس حکومت کے حکام کوئی اور احمقانہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔
اس حقیقت کی بنیاد پر فلسطینی قوم سمیت علاقے کی اقوام صیہونی حکومت کے مقابلے میں ہمیشہ مکمل طور پر تیار ہیں اور ان حالات میں مزاحمت کو باقی رکھنا اور اس میں اضافہ کرنا، صیہونی حکومت کو کسی بھی قسم کی مہم جوئی اور احمقانہ اقدام سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔